گھر گرانے کا حکم نہیں دیا‘ قبضے خالی کرائیں‘ وفاقی سندھ حکومت میئر ملکر معاملہ حل کریں : سپریم کورٹ
کراچی(این این آئی) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا، کراچی میں بڑے مسائل ہیں۔ سن لیں! غیر قانونی قبضے ہرگز برداشت نہیں کروں گا ، جو کرنا ہے کریں، قبضے خالی کرائیں، کراچی صاف کریں، وفاق، سندھ حکومت اور میئر مل بیٹھ کر معاملہ دیکھیں۔ آپریشن سے متاثرین کو متبادل جگہ دینی ہے تو وہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور احمد خان، میئرکراچی وسیم اختراور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔ میئر کراچی وسیم اختر کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وسیم اختر کو فوری طلب کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے نظرثانی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا تاہم پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں۔ آپریشن کو بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے، جس دکاندار کی دکان گئی اس کا تو روزگار ہی چلا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے ؟ ہمارا پہلا حکم یہ تھا ایمپریس مارکیٹ کے تجاوزات کا خاتمہ کریں اور اب سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اپنا فریضہ پورا کرے اور متاثرین کو متبادل جگہ دینی ہے تو سندھ حکومت دے، ہم نے کب منع کیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہم نے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل کے طور پر صاف کرنے کا کہا تھا اور اب تاثر یہ دیا جا رہا ہے سپریم کورٹ نے صورتحال خراب کر دی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے سڑک اور فٹ پاتھ پر تجاوزات کا خاتمہ ہو۔ قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگ گئی ہے، آپ کو اندازہ نہیں میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داﺅ پر لگا دیا ہے، ہمیں ہرحال میں قانون کی بالادستی چاہیے۔ ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے۔ ہمیں ہر حال میں قانون کی بالا دستی چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہم کراچی والے ہیں ہم بھی بہتری چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کے دوران ریمارکس دیئے کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، گورنر صاحب نے کال کرکے کہا یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں؟، لوگ احتجاج شروع کردیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کردیں، کیا قبضہ مافیا کے سامنے سرجھکا دیں؟ کراچی کو اسی طرح چھوڑدیں ؟ آپ سمجھتے ہیں ہم کارروائی روک دیں گے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی چار ہفتے کا وقت دے دیں، مسئلے کا حل نکالیں گے۔ میئر کراچی نے کہا ہم عمل درآمد کررہے ہیں بس گھروں کو نہ توڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم تو نہیں دیا، آپ خود کررہے ہیں تو ہمارا مسئلہ نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ہم نے دیکھا تھا نالے پر عمارت بنی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوا؟، ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا نہرِ خیام پر ایک عمارت بنی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ فیصلہ کریں جو کرنا ہے اور قانون کے مطابق کام کریں۔ آپ کو ایک ایک پارک کی زمین خالی کرانا ہو گی۔ ، میئر کراچی نے عدالت کو بتایا باغ ابنِ قاسم میں ایک عمارت ہے، وہاں مسلح لوگ بیٹھے ہیں اور شاید معاملہ ہائی کورٹ میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میئر صاحب آپ کو کسی نے نہیں روکا کام جاری رکھیں، کون ہے قبضہ کرنے والا بتائیں، ابھی ہائی کورٹ سے فائل منگواتے ہیں، اچھی طرح سن لیں غیر قانونی عمارت اور قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو ہم مکمل سپورٹ کریں گے۔ سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور میئر کراچی مل کر حکمت عملی بنائیں۔ جو بھی کریں لیکن قبضے ختم کرائیں۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ کیا سندھ حکومت کو نالوں پر قبضے خالی کرانے پر اعتراض ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ میئر کراچی کو چار ہفتوں کے لیے آپریشن سے روکیں وہ بہت تیزی سے تجاوزات گرا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیوں روکیں، آپ لوگ مل کر بیٹھیں۔ سندھ حکومت کہنا چاہ رہی ہے کہ قبضے ہو گئے ہیں اب انہیں قانونی تحفظ دے دیں۔ سلمان طالب الدین نے موقف اختیار کیا کہ تجاوزات کے دوران گھر توڑے جا رہے ہیں اور میئر کراچی کے پاس بحالی کا کوئی پلان نہیں ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میئر کراچی نے پورا پلان بنا رکھا ہے جب کہ بحالی کا منصوبہ بنانا تو سندھ حکومت کا کام ہے۔ ہم تجاوزات کے خلاف آپریشن بند نہیں کر سکتے کیونکہ اب ہم نے روک دیا تو پھر یہ کبھی نہیں ہو پائے گا۔ چیف جسٹس نے وفاقی اور سندھ حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا رات کو بیٹھ کر آپس میں فیصلہ کر لیں کہ کیا اور کس طرح کرنا ہے ہم رات کو بھی یہیں پر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے یہ کارروائی جاری رہنی چاہیے، تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر کام ہونا مشکل ہے، تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں۔ دوران سماعت ایک شہری نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اویس مظفر ٹپی کی شکایت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ شاہ لطیف ٹاﺅن میں بڑے پیمانے پر ناجائز قبضہ ہے، بیوائیں روتی ہیں، اور یہ قبضے اویس مظفر ٹپی نے کرائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کون ہے یہ ٹپی؟ کہاں ہے یہ ٹپی؟ اسے آج پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ایڈووکیٹ جنرل صاحب کی حکومت یا کسی وزیر نے کہیں قبضہ کیا ہوا ہے تو فوری خالی کریں، میئر صاحب آپ بھی کان کھول کر سن لیں دو دن میں کسی رہنما یا کسی نے قبضہ کیا ہے تو خالی کردے، آپ صفائی گھر سے شروع کریں اور لوگوں کیلئے مثال بنائیں، کسی کے قبضے کی نشاندہی ہوگئی تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ چیف جسٹس نے مقدمہ کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے تک ملتوی کر دی۔ مزید برآں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں شہر میں 6 منزلہ سے زائد عمارتوں کی تعمیر پر پابندی سے متعلق ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے مختصر سماعت کے بعد شہر میں 6 منزلہ سے زائد بلڈنگز کی تعمیرات پر پابندی سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی شہر میں قانون کے مطابق تعمیرات جاری رکھنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین کے مطابق ہائی رائز تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے چلیں انڈسڑی کے ساتھ بحریہ ٹاو¿ن کو بھی فائدہ ہوجائے گا۔
چیف جسٹس /تجاوزات
کراچی (این این آئی+ نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کراچی اور کوئٹہ کی صورتحال دیکھ کر ڈیم کی تعمیر کا خیال میرے ذہن میں آیا،مجھے نہیں سمجھ آئی کراچی میں پانی کی کمی کیسے ہوئی؟ منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔پاکستان سیکریٹریٹ میں تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستا ںمیاں ثاقب نثار نے کہا کراچی میں سپریم کورٹ کی نئی عمارت کی اشد ضرورت تھی۔صوبوں میں سپریم کورٹ رجسٹری کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کراچی میں ایک مافیا ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کراچی میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کی جائے،ہماری بیورج انڈسٹری تقریبا سات ارب گیلن پانی استعمال کررہی ہے۔انہوں نے کہا کیا عمارت ادارہ ہوتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ،اس عمارت میں بیٹھ کر انصاف کرنے والے ججوں کی اہمیت ہے،میرے ساتھی ججز اس عمارت میں انصاف کے تقاضے پورے کریں گے،یہ ملک ہمارا ہے، اس میں بے شمار نعمتیں ہیں،تھوڑی خامیاں ہیں، تھوڑی کوششیں کریں تو ملک کو بہت بہتر کرسکتے ہیں،اہم ترین کمی پاکستان میں قربانی کا جذبہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا جو قربانی گھر خاندان کے لیے کی جاتی ہے اسی جذبے کے ساتھ ملکی تعمیر میں حصہ لیں گے تو تقدیر بدل جائیگی،بچوں کی تربیت میں کوئی غفلت نہیں برتتا، کوئی اپنے بچے کو خیانت نہیں سکھاتا۔جو کچھ اپنے خاندان کیلئے کرنا چاہتے ہیں اگر وہی ملک کے لیے کرلیا جائے تو چند برسوں میں ملکی تقدیر بدل جائیگی۔ انہوں نے کہا عوام کے مسائل اور ان کی ضروریات ترجیح ہونی چاہیے، ترجیحات بدلیں تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، پانی انسان کی زندگی ہے، انسان کا وجود پانی سے جڑا ہے، پانی کے لیے فرائض انجام نہیں دیے 2025 میں طویل بحران کا شکار ہوجائیں گے، نہ صرف ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے بلکہ پانی کے استعمال میں احتیاط کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا انصاف کرنے والے اداروں کو مضبوط کرتے ہیں۔ زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ خامیوں پر قابو پا کر ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ پانی کے مسئلے پر دیانتداری کے ساتھ کام کرنا ہے۔ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس /ڈیم