گیس بحران‘ وزیراعظم کا ایم ڈیز سوئی سدرن اور نادرن کیخلاف 72 گھنٹے میں انکوائری کا حکم
اسلام آباد، کراچی (نمائندہ خصوصی+ خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ) ملک میں گیس بحران پر وزیراعظم نے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ایم ڈیز کیخلاف انکوائری کا حکم دیدیا ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ وزیر پٹرولیم تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کریں۔ وزیراعظم نے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ایم ڈیز کیخلاف تحقیقاتی کارروائی 72 گھنٹے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے گیس بحران کی تحقیقات فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی۔ چیئرپرسن اوگرا عظمیٰ عادل کمیٹی کی سربراہ مقرر کردی گئیں جبکہ ڈی جی پلاننگ کمیشن قاضی سلیم صدیقی اور ڈی جی گیس شاہد یوسف کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ کمیٹی ایم ڈی سوئی سدرن اور ناردرن کیخلاف الزامات کی تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی وزارت سے معلومات چھپانے کے الزامات کی بھی تحقیقات کرے گی۔ کمیٹی دونوں کمپنیوں کے سسٹم کی ناکامی کا بھی جائزہ لے گی۔ کمیٹی اپنی کارروائی کے دوران کسی بھی ماہر کو معاونت کیلئے بلاسکتی ہے۔ کمیٹی 72 گھنٹے میں اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔قبل ازیں وزیراعظم کی زیرصدارت ملک میں گیس کی فراہمی کے سلسلے میں پیدا ہونے والے بحران کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیا کہ گیس کے حالیہ بحران کی ذمہ داری بنیادی طور پر ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے نہ صرف حکومت سے بعض گیس کمپریسر پلانٹس کی خرابی سے متعلق معلومات کو پوشیدہ رکھا بلکہ دسمبر کے مہینے میں گیس کی طلب کے حوالے سے تخمینہ سازی میں غفلت اور نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر پٹرولیم غلام سرور خان، وزیر توانائی عمر ایوب، وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی، چیئرمین ٹاسک فورس برائے انرجی ندیم بابر، وفاقی سیکریٹریز اور دیگر افسران کی شرکت کی۔ وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کی جانب سے وزیرِ اعظم کو گیس کی صورتحال اور پیدا ہونے والے حالیہ بحران پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ دوسری طرف سوئی سدرن نے کہا ہے کہ مختلف فیلڈز سے گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ گمبٹ اور کنڑ پاساکھی سے گیس میں 50 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ گمبٹ سے 25 ملین مکعب فٹ گیس یومیہ مل رہی ہے جبکہ کنڑ پاساکھی سے 175 ملین مکعب فٹ یومیہ گیس مل رہی ہے۔
گیس بحران/ تحقیقات
اسلام آباد (اے پی پی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ گورننس رہا ہے، طاقتور کیلئے ایک قانون جبکہ کمزور کے لئے دوسرا قانون رہا ، ماضی میں بلوچستان کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں انتہا درجے کی کرپشن ہوتی رہی ہے، موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے مختلف ہے، نئے بلدیاتی نظام میں ترقیاتی فنڈز دیہات کی سطح پر مہیا کیے جائیں گے، سی پیک بلوچستان کے لئے ترقی و خوشحالی کا روشن باب ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ بات بدھ کو کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ کے طلباءسے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ ملاقات میں وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار زبیدہ جلال بھی موجود تھیں۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ کے کیڈٹس کی وزیرِ اعظم سے بلوچستان کی مجموعی صورتحال، بلوچستان کے مسائل، تعلیم اور دیگر موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے طلباء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ گورننس رہا ہے، یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم ماضی کی حکومتوں کی بد انتظامی کی وجہ سے صوبہ پسماندگی کا شکار رہا ہے۔ وزیرِ اعظم نے سوئٹزر لینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سوئٹزر لینڈ میں وسائل محدود ہیں لیکن گڈ گورننس کی بدولت سوئٹزرلینڈ آج یورپ کے بعض دیگر ملکوں سے بھی زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں کرپشن ہوتی ہے وہاں کے عوام پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے ریاستِ مدینہ اور خلافت راشدہ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے نبی نے ریاست کے جو سنہری اصول مرتب کیے ان پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں نے محدود وسائل کے باوجود دنیا کی امامت کی۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی ترقی کے لئے قانون کی حکمرانی، انصاف، نچلے طبقے کی معاونت اور ان کو اوپر اٹھانے کے لئے جامع نظام اور تعلیم کا فروغ کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے تعلیم سب سے ضروری چیز ہے۔ انہوں نے طلبا پر زور دیا کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں تعلیم کے حصول پر صرف کریں۔ بلوچستان کے سماجی و معاشی حالات پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے بلوچستان میں طاقتور کے لئے ایک قانون جبکہ کمزور کے لئے دوسرا قانون رہا ہے۔ ماضی میں بلوچستان کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز میں انتہاءدرجے کی کرپشن ہوتی رہی ہے۔ نچلی سطح پر فنڈز منتقل نہ ہونے کے سبب علاقہ پسماندگی کا شکار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے بلدیاتی نظام میں ترقیاتی فنڈز دیہات کی سطح پر مہیا کیے جائیں گے تاکہ عوام کی ضروریات کے مطابق ان ترقیاتی فنڈز کا صحیح استعمال یقینی بنایا جا سکے۔ سی پیک اور گوادر کی تعمیر پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے امید ظاہر کی کہ سی پیک بلوچستان کے لئے ترقی و خوشحالی کا روشن باب ثابت ہوگا۔ پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ حکومت کو بلوچستان میں پانی کی سنگین صورتحال کا ادراک ہے۔ پانی کی فراہمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے جامع پلاننگ ، پانی کے صحیح استعمال اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قلیل، وسط اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔دریں اثنا وزیراعظم کی صدارت میں اجلاس میں اسلام آباد‘ پنجاب اور کے پی کے میں صحت کے متعلق جاری اصلاحات کا جائزہ لیا گیا۔ سیکرٹری صحت نے ہیلتھ کے متعلق نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 55 سال سے اسلام آباد میں مریضوں کیلئے دستیاب بیڈز کی تعداد 2 ہزار ہے۔ پانچ سال میں اسلام آباد میں یہ تعداد 4 ہزارکی جائے گی۔ اسلام آباد میں 200 بستروں کا کینسر ہسپتال‘ ترلائی میں 2 سو بستروں کا جنرل ہسپتال‘ روات‘ بھارہ کہو اور ترنول میں ”چائلڈ اینڈ مدر“ ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ کے پی کے کے وزیر صحت ڈاکٹر ہاشم انعام اﷲ خان نے صوبائی حکومت کی طرف سے صحت کے شعبے میں اصلاحات کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف صحت کارڈز پروگرام میں وسعت لائی گئی ہے۔ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین رشید نے پنجاب کے حوالے صحت کی اصلاحات پر روشنی ڈالی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی صحت کے شعبے کی انتظامی اور قانونی تمام رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے۔ وزیراعظم نے غذائی ملاوٹ روکنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ اسلام آباد ہیلتھ مینجمنٹ اتھارٹی بنائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم سے رکن قومی اسمبلی اعجاز شاہ نے بھی ملاقات کی۔
عمران خان