پیراگون سکینڈل : سعد رفیق‘ سلمان 10 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے‘ ملزموں کو طبی سہولتیں دی جائیں : احتساب عدالت
لاہور( اپنے نامہ نگار سے، وقائع نگار خصوصی) احتساب عدالت نے پیراگون ہا¶سنگ سکینڈل میں گرفتار سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا ہے۔ پراسیکیوٹر کی جانب سے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایاکہ ملزموں نے پیراگون کی ملکیت سے متعلق جھوٹ بولاہے۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایاکہ سعدرفیق اپنی اہلیہ کے نام پرسوسائٹی بنانے جارہے تھے، سوسائٹی کی زمین سعدرفیق نے فروخت کی۔ پھلروان گا¶ں کے قریب پیراگون سٹی کے نام سے سوسائٹی بنائی گئی،پیراگون سوسائٹی غیرقانونی ہے،ایل ڈی اے سے منظور نہیں، پیراگون سوسائٹی کے 90 متاثرین کی جانب سے شکایات جمع کرائی گئی ہیں۔ بلڈرزکے اکا¶نٹس سے خواجہ برادران کے اکا¶نٹ میں اربوں کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ خواجہ برادران کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے خواجہ برادران کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔فاضل عدالت نے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور بعدازاں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے خواجہ برادران کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرنے کا حکم سنادیا۔ دوبارہ 22 دسمبر کو پیش کرنے کا حکم دیااور ملزموں کو میڈیکل سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایات جاری کر دیں۔نیب لاہور کے مطابق خواجہ سعد رفیق نے اپنی اہلیہ، بھائی سلمان رفیق، ندیم ضیاءاور قیصر امین بٹ سے مل کر ائر ایونیو سوسائٹی بنائی جس کا نام بعد میں تبدیل کرکے پیراگون رکھ لیا گیا۔خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی ہا¶سنگ سوسائٹی کی تشہیر کی اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور اربوں روپے کی رقم بٹوری۔خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے ۔ سعد رفیق نے کمرہ عدالت میں اپنے وکیل کیساتھ گفتگو کے دوران شکوہ کیا کہ نیب کے واش رومز میں اندر سے چٹخنی بھی نہیں جبکہ کیمرے اُتار دئیے ہیںجبکہ میرا گھر کا کھانا بھی بند کر دیا گیا، پریشان ہوں، آج صبح انہوں نے ناشتہ بھی نہیں کیا۔ عدالت کے باہر ہزاروں پولیس اور رینجرز اہلکار تعینات کئے گئے ہیں اور انکے حامیوں کوعدالت میں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ نیب اہلکاروں نے گھر سے آیا ہوا میرا کھانا بھی واپس بھجوا دیا۔ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے عدالت میں وکلا سے غیر رسمی گفتگو کے دوران مزید کہا کہ میرے پیچھے ہزاروں پولیس اہلکاروں اور رینجرز کو لگایا ہوا ہے میں کوئی دہشتگرد تو نہیں ہوں۔ احتساب عدالت نے قیصر امین بٹ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید توسیع کر دی ہے۔قیصر امین بٹ کو دوبارہ 22 دسمبر کو احتساب عدالت کے روبرو پیش کیا جائے گا۔احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے کیس کی سماعت کی،نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیاکہ قیصر امین بٹ کو نیب کی جانب سے سندھ کے شہر سکھر سے گرفتار کیا گیا تھا اورقیصر امین بٹ کو وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد جوڈیشل کر دیا گیا ۔نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دئیے کہ قیصر امین بٹ کو فراڈ، دھوکہ دہی اور مالی بے ضابطگیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیاگیا اور قیصر امین بٹ نے ندیم ضیاءسی ای او پراگون سٹی سے ملکر سادہ لوح شہریوں کو لوٹا، سرکاری وکیل کا مزید کہنا تھاکہ 2005 میں قیصر امین بٹ نے ندیم ضیا کے ساتھ ملکر غیر قانونی ہا¶سنگ سوسائٹی بنائی، اور ملزمان نے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا۔ لاہور ہائیکورٹ نے قیصر امین بٹ کی درخواست ضمانت پر نیب حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جواب طلب کر لیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی جس میں وعدہ معاف گواہ بننے اور تفتیش مکمل ہونے کے باوخود جیل سے رہا نہ کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواستگزار وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ قیصر امین بٹ نے وعدہ معاف گواہ بن کر بیان ریکارڈ کروا دیا۔ قیصر امین بٹ نے عدالت کے روبرو دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین نیب نے بھی معافی دے دی ہے۔ وکیل نے قانونی نقطہ اٹھایا کہ نیب قانون کے مطابق چیئرمین نیب کی معافی کے بعد درخواست گزار کو رہا کیا جانا تھا۔ وکیل نے عدالت کے روبرو یقین دہانی کروائی ہے کہ قیصر امین بٹ کہیں فرار نہیں ہوگا،ہر قسم کی ضمانت دینے کیلئے تیار ہیں۔ وکیل نے استدعا کی کہ عدالت قیصر امین بٹ کو جیل سے رہاکرنے کا حکم دے۔ خواجہ برادران کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف کے راستوں کو کنٹینرز اور خار دار تاریں لگا کر بند کردیا گیا جس پر شہری غصے میں آگئے۔ راہگیروں اور پولیس اہلکاروں میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ۔ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی۔کرفیو کا سماں پیدا ہو گیا۔ شہریوں، مسافروں کوسخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوا۔ وقت پر سکولز، کالجز ، یونیورسٹیز اور دفاتر پہنچنا دشوار ہوگیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس طرح کے مقدمات کی سماعت جیلوں کے اندر کی جائے اور شہریوں کو اذیت نہ دی جائے۔
احتساب عدالت