بلوچستان: صاف پانی کی عدم فراہمی‘ کمشن قائم‘ بھاشا ڈیم حد بندی تنازعہ پر وزیراعلیٰ خیبر پی کے سے جواب طلب
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر میں حد بندی تنازعہ پر وزیر اعلی کے پی کے سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کیس میں پاور ڈویژن کو فریق بنانے کی استدعا مستردکردی۔ بھاشا ڈیم حد بندی کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربرا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہا گزشتہ سماعت پر ہم نے کہا تھا دونوں حکومتیں اپنا اپنا فیصلہ کریں لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ وفاق اور کے پی کے میں ایک ہی سیاسی جماعت کی حکومت ہے دونوں فریقین کو بیٹھ کر مسئلہ کا حل نکالنا چاہیے، کیس میں پاور ڈویژن کی جانب سے فریق بننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا ایسے کسی کو انفرادی طور پر فریق بننے نہیں دیں گے۔ عدالت نے معاملہ پر وزیر اعلی کے پی کے سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزیر ا علی جواب بیان حلفی کی شکل میں جمع کروائیں۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال سے متعلق قانون سازی میں تاخیر پر پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ 22 ارب روپے پاکستان کے برباد کر دیئے ہیں جوابدہ کون ہے کیس نیب یا انٹی کرپشن کو دینا چاہئے، پنجاب حکومت سست روی کا شکار ہے کوئی کام نہیں ہو رہا، ہیلتھ کیئر کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں، عدالت نے پنجاب کابینہ کو دو ہفتے میں سمری پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پی کے ایل آئی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل اف پاکستان کو بھی شامل کرنے کا حکم دیدیا۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر پوچھا تھا ٹرسٹ کا کیا کرنا ہے بائیس ارب روپے خرچ کر دیے ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی دو مرتبہ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، ایڈیشنل سیکرٹری نے عدالت کا بتایا کہ اس قانون میں تبدیلی کر رہے ہیں کابینہ کو مکمل پروپوزل بنا کر بھیجی گئی ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے سالوں سے سعید اختر اس کے انچارج ہیں۔ جس پر ڈاکٹر سعید اختر نے عدالت کو بتایا کہ تین سال ہو گئے ہیں چیف جسٹس نے کہا کہ تین سال سے آپ بیس لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں، ڈاکٹر سعید اختر نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی۔ ہم نے اکیس کڈنی ٹرانسپلانٹ کئے ہیں اورکینسر کے علاج بھی کئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ لیور کا ٹرانسپلانٹ تھا گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہوں پر بھی ہو رہے ہیں۔ آپریشن تھیٹر فعال نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے اگر آپ کہیں تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے آپ شہباز شریف سے ملے تھے ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا۔ کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہے، جس پر ٹرسٹ کے ممبر نے عدالت کو بتایا کہ ٹرسٹ نے 165 ملین فنڈز کا حصہ ڈالا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا ابھی بھی جون تک یہ لوگ آپریشن کے لیے تیار نہیں ہیں کام ایک نہیں ہوا، اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں چلے گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 34 ارب کا منصوبہ 22 ارب لگ گئے جن لوگوں کوٹرسٹی بنایا گیا انکا کیا تعلق فوم بیچنے والے کو بھی ٹرسٹی بنا دیا گیا22 ارب روپے کا جوابدہ کون ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل زاہد کو بھی پی کے ایل آئی کی کمیٹی میں شامل کر رہا ہوں عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کے مطابق پی کے ایل ائی کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے سمری منظوری کے لیے کابینہ کو بھجوائی گئی ہے۔ عدالت نے ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا بھی حکم دیدیا سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعلی کے پی کے پرویز خٹک کو اشتہا ری مہم کی مد 13 لاکھ 65ہزار دس روز میں ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی سابق وزیر اعلی پرویز خٹک اشتہاری مہم کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعلی کے اشتہارات پر 13 لاکھ 65 ہزار خرچ ہوئے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک یہ رقم اپنی جیب سے ادا کریں گے جس پر عدالت نے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک کو 13 لاکھ 65ہزار دس روز میں ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے پمز ہسپتالمیں ہائوس جاب کرنے والے ڈاکٹر کو ہر ماہ کی 10تاریخ تک وظائف ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے خبر دار کیا ہے کہ وظائف نہ دینے کی صورت میں کالجزکے سی ای او کے خلاف کارروائی کی ہوگی۔سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے زیر انتظام ہسپتالوں کی صوبائی حکومت کو منتقلی کیس کی سماعت عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کو ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیاہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے زیر انتظام ہسپتالوں کی صوبائی حکومت کو منتقلی کیس کی سماعت کی چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں بھی شیخ زید ہسپتال جیسا ایشو ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سندھ کے کونسے ہسپتال ہیں، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سندھ کا جناح ہسپتال، این آئی سی وی ڈی ، این آئی سی ایچ ہسپتال ہیں، عدالت اس کیس میں وقت دے دے عدالت نے شیخ زید ہسپتال کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کو ایک ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت 3 جنوری تک ملتوی کر دی گئی ہے۔