ملازمین دوہری شہریت چھوڑیں یا ملازمت‘ حکومت ڈیڈ لائن دے‘ قانون سازی کرے : سپریم کورٹ
لاہور(وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے دوہری شہریت والے سرکاری ملازمین سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے دوہری شہریت کے حوالے سے ایسے بہت معاملات ہیں جن پر عدالتیں احکامات جاری نہیں کر سکتیں۔البتہ تجاویز اور گائیڈ لائن پارلیمنٹ کو بھجوائی جا رہی ہیں۔ فاضل عدالت نے غیر ملکی شہریت رکھنے والے سرکاری ملازمین کو ریاست پاکستان کے مفاد کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومت کو دوہری شہریت سے متعلق پر قانون سازی کرنے کا حکم دے دیاموجودہ قوانین اور سپریم کورٹ کی تجاویز کی روشنی میں پارلیمنٹ ہی اس پر غور و غوض کرے اور قانون سازی کی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ضروری حالات میں کسی غیر پاکستانی کو عہدہ دینے سے قبل کابینہ سے منظوری لی جائے۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دوہری شہریت والے اپنے ملازمین کی فہرستیں مرتب کرکے ان کے نام منفی فہرست میں ڈالیں۔ عدالتی فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ دوہری شہریت والے ملازمین کے خلاف کارروائی کے لیے جلد قانون سازی اور دیگر اقدامات کرے۔فیصلے کے مطابق ایسے عہدوں کی فہرست بنائیں جن پر کابینہ کی منظوری کے بغیر قومی سلامتی کی وجہ سے دوہری شہریت والے افراد کو تعینات نہیں کیا جاسکتا۔عدالت نے فیصلے میں کہا وفاقی اور صوبائی حکومت کے زیر اثر آزاد اور خود مختار اداروں کے عہدوں کی فہرست بنائی جائے جن پر دوہری شہریت کے لوگوں کو رکھا گیا ہے۔اس کے ساتھ یہ بھی فیصلہ دیا گیا ہر سال کے اختتام پر پارلیمنٹ کے سامنے ایسے ملازمین کی فہرست بنائی جائے جو خود دہری شہریت رکھتے ییں یا دوہری شہریت والوں سے شادی کی ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے جن ملازمین نے دوران سروس دوہری شہریت لی بادی النظر میں اکثریت نے ناجائز دولت کو چھپانے کے لیے ایسا کیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔فاضل عدالت نے 52 صفحات ہر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا دوہری شہریت کے حوالے سے ایسے بہت معاملات ہیں جن پر عدالتیں احکامات جاری نہیں کر سکتیںجن ملازمین نے دوران سروس دوہری شہریت لی بادی النظر میں اکثریت نے ناجائز دولت کو چھپانے کے لیے ایسا کیا۔دوہری شہریت کا لینا ان کی بد نیتی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ایسے افسروں اور ملازمین کو قومی سلامتی کے اداروں میں تعینات نہ کیا جائے۔ حکو مت کی وضع کردہ پالیسی پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔غیر ملکی شہریت کے حامل ملازمین کو قومی سلامتی کے حوالے سے خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اس بارے واضح پالیسی بنائی جائے۔دوہری شہریت کے حامل شخص کی ملازمت کےلئے کابینہ خصوصی منظوری دے۔جن ملازمین نے دوہری شہریت ظاہر نہیں کیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ان کو ڈیڈ لائن دی جائے۔وہ شہریت چھوڑ دیں یا ملازمت۔دوہری شہریت رکھنے والوں کے حوالے سے ایس او پیز بنائے جائیں۔دوہری شہریت کے حوالے سے قوانین میں موجود سقم دور کیے جائیں۔ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ وفاقی حکومت پارلیمنٹ کو سابق سرکاری ملازمین کے بیرون ممالک ملازمت پر پابندی کے قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے سالانہ رپورٹ پیش کرے۔وفاقی اور صوبائی محکموں کے زیر کنٹرول خود مختار اداروں کے دوہری شہریت رکھنے والے ملازمین اور ان کی بیگمات کی فہرستیں ہر سال مرتب کی جائیں غیر ملکیوں کے پاکستان میں ملازمت پر پابندی کے لیے وفاقی او صوبائی حکومتیں جائزہ لے سکتی ہیں۔وفاقی حکومت غیر ملکیوں کو پاکستان میں ملازمت کی اجازت دینے کے معیار مرتب کر سکتی ہے۔ ایسی ملازمتیں جہاں غیر ملکی کام نہیں کر سکتے حکومتیں ان کی منفی فہرستیں مرتب کر سکتی ہیں۔اہم سرکاری عہدوں پر دوہری شہریت والے افسران کو تعینات نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کابینہ کی منظوری کے بعد اس حوالے سے قانون سازی کرے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئندہ اہم سرکاری عہدوں پر دہری شہریت والے افسران کو تعینات نہ کیا جائے۔اگر کوئی تعیناتی ناگزیر ہو تو وفاقی کابینہ کی منظوری لی جائے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس لیا تھا اور ایسے تمام افسران کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔فاضل عدالت نے گزشتہ روز محفوظ فیصلہ سنا دیا۔مزید برآں چیف جسٹس پاکستان نے ملک بھر میں پولیس کو غیرسیاسی کرنے اور پولیس آرڈر 2002 کے نفاذ کیلئے دائر درخواست پر وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کر دیئے اور ان سے تحریری جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست پر مزید سماعت 26 دسمبر کو ہوگی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قرار دیا پرائیویٹ ہسپتالوں نے پبلک سیکٹر کا برا حال کیا ہوا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال یہ سب نہ کریں تو ان کے ہسپتال کیسے چلیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پرائیویٹ ہسپتالوں کے بارے میں از خود نوٹس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ایف آئی اے کو نیشنل ہسپتال کا تمام ریکارڈ ضبط کرنے کا حکم دیا اور ہدایت کی نیشنل ہسپتال کا فرانزک آڈٹ بھی کیا جائے۔ پنجاب ہیلتھ کمشن کے مطابق پرائیویٹ ہسپتال 32 سو سے11ہزار روپے تک روزانہ کے حساب سے چارجز وصول کرتے ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے نیشنل ہسپتال کا ایک ڈاکٹر بہت شورکرتا ہے انکی بے عزتی کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا سنا ہے کچھ ہسپتالوں نے جنریٹر باہر سٹرک پر رکھے ہوئے ہیں؟ سپریم نے ہدایت کی ڈاکٹرز ہسپتال کی تعمیر میں کچھ خلاف قانون ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کریں۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے شہری علاقوں میں پٹوارسرکل سے متعلق چاروں صوبوں سے دوبارہ تفصیلی رپورٹ طلب کر لی اور عدالت نے صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔ دوران چاروں صوبوں کے نمائندوں نے عدالت سے تفصیلی جواب داخل کرنے کی مہلت طلب کی۔جسے فاضل عدالت نے منظور کر لیا۔ عدالت نے کہا شہری علاقوں میں پٹوار خانے کس قانون کے تحت کام کر رہے ہیں۔رشوت کا سب سے بڑا ناسور پٹواری ہیں۔ شہری علاقے میں رجسٹری کے بعد انتقال کرانے کا کیا مقصد ہے۔یہ سب پٹواریوں کے کھانے کے طریقے ہیں۔
دوہری شہریت
لاہور( وقائع نگار خصوصی ) سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بیرون ملک ملازمت کیلئے جاری این او سی غیر قانونی قرار دیدیا۔ فاضل عدالت نے سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت کیس کاتفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا سیکرٹری دفاع کو سابق آرمی چیف کی بیرون ملک ملازمت کیلئے جاری این او سی درست کرنے کیلئے ایک ماہ کی مدت دی جاتی ہے ۔ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری کیا جائے ۔ درستگی نہ ہونے پر راحیل شریف بیرون ملک ملازمت سے سبکدوش تصور کیے جائیں گے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا، قانون کے مطابق سابق ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کر سکتی ہے اوروفاقی حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے جبکہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو جی ایچ کیو اور وزارت دفاع نے این او سی جاری کیا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا این او سی کے بغیر سابق سرکاری ملازم بیرون ملک ملازمت نہیں کر سکتا۔
راحیل شریف