• news

مشرقی پاکستان کی علیحدگی دل خراش سانحہ‘ کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا: مقررین

لاہور (خصوصی رپورٹر) مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری قومی تاریخ کاایسا دل دوز سانحہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس سانحہ کے پس پردہ کارفرما بھارت کا کردار بے نقاب ہو چکا ہے۔ آج بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر جنید احمد نے مشرقی پاکستان کے سقوط کے پیچھے چھپے اصل حقائق کے انکشافات کے ساتھ نئے معروضی اور تحقیقی پہلوئوں کو سامنے لا کر اہم قومی خدمت انجام دی ہے جس پر ان کا سرکاری سطح پر اعتراف خدمت کیا جانا چاہئے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ، شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میںممتاز دانشور ڈاکٹر جنید احمد کی محققانہ تحقیق اور حقائق پر مبنی تصنیف ’’ بنگلہ دیش کی تخلیق: فسانے اور حقائق‘‘ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ تقریب کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔اس موقع پر تحریک پاکستان کے کارکن اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، ممتاز دانشور اور صحافی مجیب الرحمن شامی، میاں فاروق الطاف،صدر نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ ملک غلام ربانی اعوان، چودھری عظمت خان، آفتاب لودھی، محمد یٰسین وٹو، پروفیسر شرافت علی، فاروق خان آزاد سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید‘ نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت محمد بلال ساحل نے حاصل کی جبکہ اختر حسین قریشی نے بارگاہ رسالت مابؐ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے اداکئے۔پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا 1971ء میں اگرچہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا لیکن اس نے اپنی الگ اسلامی شناخت برقرار رکھی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بڑا سبب بنی، بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا اور تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ انہوں نے کہا ہمارا میڈیا بنگلہ دیش کی خبروں کی بھی کوریج کرے۔ آج بھی بنگالیوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ہمیں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں اور اس سلسلے میں باہمی وفود کا تبادلہ کیا جائے۔ ڈاکٹر جنید احمد نے کہا 1971ء کی جنگ میں 93ہزارپاکستانی فوجیوں کے ہتھیار پھینکنے اور 30لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کا پروپیگنڈا مستند حقائق و ٹھوس شواہد کی بنیاد پر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ یہ پروپیگنڈا محض مفروضوں پر مبنی اور علیحدگی پسند بنگالیوں کے اپنے ذہنوں کی اختراع ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔1971ء کی جنگ میں پاکستان کی ایسٹرن کمانڈ میں 34ہزار باقاعدہ فوجی تھے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں 93ہزار فوجیوں نے ہتھیار پھینکے ہوں۔ 20اگست 1972ء کو مجیب الرحمن کو جو کمیشن رپورٹ پیش کی گئی اس میں 50ہزار بنگالیوں کے قتل اور 3000 عورتوں کی عصمت ریزی کی رپورٹ تھی جسے پہلے ہی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔اب تو حقائق کو بالکل ہی مسخ کیا جا رہا ہے۔ 1957ء میں بھارتیوں نے شیخ مجیب الرحمن سے باضابطہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا اور ان کا منصوبہ تھا کہ 1962ء میں پاکستان دولخت ہو جائے لیکن اس سال بھارت اور چین جنگ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا، اس کے بعد 1965ء کا سال طے ہوا لیکن وہ بھی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا ، پھر1967ء کا سال طے ہوالیکن اس سے قبل ہی پاکستان کو اس سازش کا سراغ مل گیا۔اندرا گاندھی نے ’’را‘‘ بنائی اور اسے پاکستان کو دولخت کرنے کا ٹاسک سونپا اور مکتی باہنی کو سپورٹ کیا گیا، اس بات کا اعتراف سابق را آفیسر بی رامن اپنی ایک کتاب میں بھی کر چکے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات کسی صورت بھی شفاف نہیں کہے جا سکتے ۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں متحدہ پاکستان کے حامیوں کو الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ ہمیں دنیا کے سامنے حقائق لانے چاہئیں، سوشل میڈیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ ان بنگالیوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیرون ممالک مقیم ہے جو 1971ء کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر وہاں سے نکل آئے تھے۔ آج بنگلہ دیش بھارت کی کلائنٹ سٹیٹ بن چکا ہے، شیخ حسینہ واجد بھارت سے پیسے لیکر حقائق کو مسخ کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور ہمیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسی رشتے کی بنیاد پر ہمیں بنگلہ دیش سے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہئے، بنگلہ دیش کے علماء سے رابطے بڑھانے چاہئیں۔ میں اپنی اس کتاب کا بنگالی اور ہندی میں بھی ترجمہ کرا رہا ہوں۔مجیب الرحمن شامی نے کہا سانحہ سقوط ڈھاکہ کو 47برس گزر چکے لیکن یہ زخم آج بھی تازہ معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جنید احمد نے وہ کام کر دکھایا جو بڑے بڑے انسٹی ٹیوشن نہیں کر سکے ۔ انہوں نے کئی برسوں کی محنت شاقہ کے بعد اس سانحہ کے حوالے سے ایک مستند کتاب لکھی ہے۔ اس سانحہ کے سیاسی اور فوجی پہلو ہیں ،بہر حال اپنوں کی کوتاہیاں اور دشمن کی عیاریاں اس سانحہ کی وجوہات بنیں۔میں اکثر بنگالیوں سے سوال کرتا ہوں آپ اکثریت میں تھے تو آپ معاملات کو اس حد تک کیوں لے گئے حالانکہ اقتدار بھی آپ کو منتقل ہونا ہی تھا لیکن آپ اختیارات نہیں لے رہے تھے، میرے اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ شیخ حسینہ واجد کے دور میں حقائق کو مسخ کر کے دوسرا سقوط ڈھاکہ جنم لے رہا ہے۔ 30لاکھ افراد کا قتل عام بے بنیاد پراپیگنڈا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ میاں فاروق الطاف نے کہا مسلم لیگ کو قائداعظمؒ کے بعد ان جیسا کوئی اورلیڈر مل جاتا تو ایسے حالات کبھی نہ ہوتے اور نہ ہی پاکستان دولخت ہونا تھا۔ڈاکٹر جنید احمد نے بڑی تگ و دو کے بعد ایک مستند کتاب لکھی ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور رہے گا ، اپنے دشمن کو نہ پہچاننے والی قوموں کیلئے اپنی آزادی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاہد رشید نے کہا سانحہ سقوط ڈھاکہ میں ہمیں اپنے ازلی دشمن بھارت کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے مکتی باہنی کے نام سے اپنی باقاعدہ فوج اپریل 1971ء میں ہی مشرقی پاکستان میں داخل کردی تھی جو وہاں پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف رہی۔ حقیقت تو یہ ہے مشرقی پاکستان کے عوام کی بہت بڑی اکثریت متحدہ پاکستان کی حامی تھی اور آج بھی مختلف مواقع پر اُن کی پاکستان سے محبت منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ڈاکٹر جنید احمد کی کتاب ’’بنگلہ دیش کی تخلیق: فسانے اور حقائق‘‘ میں انتساب سے لیکر آخری صفحہ تک اس کتاب کے ہر لفظ سے وہ کرب ظاہر ہوتا ہے جو اس سانحے پر ہر محب وطن پاکستانی نے محسوس کیا اور جو ہر سال 16دسمبر کو تازہ ہوجاتا ہے۔ پروگرام کے آخر میں پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے ڈاکٹر جنید احمد کو یادگاری شیلڈ پیش کی ۔

ای پیپر-دی نیشن