مودی سرکار کیلئے مندر کے راستے پارلیمنٹ پہنچنا آسان نہیں رہا: بی بی سی رپورٹ
نئی دہلی (بی بی سی) آئندہ ہفتے انڈیا کی تین شمالی ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حزب اختلاف کانگریس کی باضابطہ طور پر حکومت قائم ہو جائے گی۔مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کی جیت نے مودی کی 'دائمی مقبولیت' اور 'ناقابل تسخیر' ہونے کے خود ساختہ دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔ ان تینوں ریاستوں میں کانگریس نیانتہائی طاقتور بی جے پی کو شکست دی ہے۔بی جے پی ایک ’کیڈر بیسڈ‘ پارٹی ہے۔ اس کے جو نظریاتی حامی ہیں وہ پوری طرح پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں۔کانگرس کی جیت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ بی جے پی ان ریاستوں میں اپنی شکست سے سکتے میں ہے۔ بی جے پی کی اصل طاقت اس سے منسلک ہندو نظریاتی تنظیموں میں پنہاں ہے۔آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، بن واسی کلیان سمیتی اور کئی دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں کا پورے ملک میں جال پھیلا ہوا ہے۔ کانگریس جب اقتدار میں تھی تو یہ واحد جماعت تھی جو پورے ملک میں موجود تھی۔ اس کا دیہی، شہری، ضلعی اور ریاستی سطح پر ایک باضابطہ تنظیمی ڈھانچہ ہوا کرتا تھا اور لاکھوں اس کے رکن ہوا کرتے تھے۔ پارٹی کے اقتدار سے ہٹنے، بالخصوص شمالی ریاستوں ں میں ایک طویل عرصے سے اقتدار میں نہ آنے سے اس کا تنظیمی ڈھانچہ پوری طرح ڈھے گیا ہے۔ اتر پردیش میں تقریباً تین عشرے سے اقتدار میں نہیں آئی ہے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں وہ پندرہ برس سے اقتدار سے باہر تھی۔ گجرات میں وہ تقر یباًبائیس برس سے ہارتی آئی ہے۔آئندہ چند مہینوں میں ملک میں پارلیمانی انتخاب ہونے والے ہیں۔ شمالی ریاستوں میں کانگریس کی جیت سے ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا کا پتہ چلتا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل تک ایسا لگتا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو دوسری مدت کے لیے کوئی نہیں روک سکے گا۔لیکن اب پہلی بار اچانک کانگریس ایک بڑے انتخابی چیلنج کی شکل میں نظر آنے لگی ہے۔ پارلیمانی انتخابات اب اتنے آسان نظر نہیں آرہے ہیں جو ابھی کچھ عرصے پہلے تک لگتے تھے۔ہندوتوا کی تنظیمیں ہی بی جے پی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کیڈر میں نئی روح پھونکنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو رام مندر کی تعمیر کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔مبصرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ انتخاب سے پہلے مودی تباہ حال کسانوں کے لیے ملک گیر سطح پر کوئی بڑا اعلان کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں ہندوتوا کے رضاکاروں کو انتخابات میں متحرک کرنے کے لیے مندر کا پرانا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔مندر کے راستے سے اگر وہ بھٹکتے ہیں تو وہ اپنے سب سے قریبی حامیوں کا اعتماد کھوئیں گے۔ لیکن کیا مندر کا راستہ انھیں پارلیمنٹ تک لے جائے گا؟ اس کے بارے میں اب یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔