آسٹریلیا نے بھی مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا
کینبرا(صباح نیوز)آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے تصدیق کی ہے کہ ان کی حکومت مغربی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم)کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتی ہے۔ بہرحال انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کا سفارتخانہ اس وقت تک تل ابیب سے منتقل نہیں ہوگا جب تک امن سمجھوتہ نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آسٹریلیا فلسطینیوں کی اپنی ریاست کی خواہش کو بھی تسلیم کرتا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ یروشلم کی حیثیت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سب سے زیادہ متنازع مسئلوں میں سے ایک ہے۔گذشتہ سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بین الاقوامی سطح پر اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کو بدل کرمقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جبکہ رواں سال مئی میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل ہوا۔ مسٹر موریسن نے آسٹریلیا کے سیاستدانوں اور بیرون کے اپنے اتحادیوں سے صلاح و مشورے کے بعد یہ اعلان کیا ہے۔ ہفتہ کو سڈنی میں وزیراعظم موریسن نے کہا کہ اب آسٹریلیا مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے جہاں کنیسیٹ ہے اور کئی سرکاری ادارے ہیں۔ہم اپنے سفارتخانے کو مغربی یروشلم اس وقت منتقل کریں گے جب وہ قابل عمل ہو اور اس کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہو۔ اکتوبر میں جب آسٹریلیا کی پالیسی پر غور کرنے کے بارے میں اعلان کیا گیا تو اسرائیل نے اس کی حمایت کی لیکن فلسطینیوں کی جانب سے اس کی تنقید کی گئی۔ اس سے قبل وزیراعظم موریسن کے پیش رو میلکم ٹرنبل نے امریکی نقش قدم پر چلتے ہوئے آسٹریلیا کے سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ دو دوسرے ممالک گوئٹے مالا اور پیراگوئے نے بھی اپنے سفارت خانے کی منتقلی کا اعلان کیا تھا لیکن پیراگوئے نے حکومت میں تبدیلی کے ساتھ اپنے فیصلے کو واپس لے لیا۔ یروشلم کی حیثیت اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کی جڑ ہے۔ اسرائیل یروشلم کو اپنا ازلی اور غیر منقسم دارالحکومت کہتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم پر اپنی دعوی پیش کرتے ہیں جس پر سنہ 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت کہتے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کے اختیار کو بین الاقوامی سطح پر کبھی بھی تسلیم نہیں کیا گیا اور1993 کے اسرائیل اور فلسطین امن معاہدے میں یہ کہا گیا کہ یروشلم کی حتمی حیثیت کا فیصلہ مستقبل میں ہونے والے امن مذاکرات کیا جائے گا۔ 1967 کے بعد سے اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں ایک درجن بستیاں آباد کی ہیں ہیں جن میں تقریبا دو لاکھ یہودی آباد ہیں۔ ان بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی تسلیم کیا جاتا ہے حالانکہ اسرائیل اس موقف سے اختلاف رکھتا ہے۔دسمبر 2017 ء میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا کالعدم ہے اور اس میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ اسے منسوخ کیا جائے۔