آصف علی زرداری کا قومی سیاست میں جارحانہ انداز
سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے ایک بار پھر جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ”انہیں“ تکلیف 18 ویں ترمیم سے ہے مگر دباﺅ مجھ پر ڈال رہے ہیں۔ اگر 18 ویں ترمیم میں ردوبدل کے لئے میں مان بھی گیا تو باقی صوبے نہیں مانیں گے۔ دیکھتے ہیں یہ میچ کہاں جاتا ہے اور کون کدھر نکلتا ہے۔ گزشتہ روز ٹنڈو الہ یار میں جلسے سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کی ان حکمرانوں سے جان چھڑا کر قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں گے جس کا اشارہ مل چکا ہے۔ ان کے بقول اس وقت ملک میں احمقوں کی حکومت ہے۔ کپتان کی انڈر 16 ٹیم کو کھیلنا نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ا گر جولائی 2018ءکے انتخابات منصفانہ ہوتے تو آج عمران خاں کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمارے قومی سیاسی قائدین جمہوریت کو رواں رکھنے اور اسے مستحکم بنانے کے بجائے اس کے خلاف محلاتی سازشوں کے حصہ بنتے رہے ہیں جس کا خمیازہ بہرصورت ملک اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر قومی سیاسی قیادتیں ملک اور سسٹم کے بہترین مفاد میں باہم متحد ہوں اور اپنی مخالف حکومت کے لئے کسی قسم کا خطرہ پیدا نہ کریں تو لازمی طور پر سلطانی¿ جمہور کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں مگر بدقسمتی سے یہاں کسی منتخب جمہوری حکومت کے پاﺅں جمنے بھی نہیں پاتے کہ اسے گھر بھیجنے کے لئے اپوزیشن کی صفوں میں سازشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ مفادات کی سیاست ہی تھی کہ جولائی 2018ءکے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر متحد نہ ہو کر اپنے لئے حکومت سازی کا موقع بھی گنوایا اور تحریک انصاف کو حکومت سازی کا نادر موقع فراہم کیا۔ اس مفاداتی سیاست میں سب سے خراب کردار پیپلز پارٹی کا ہی رہا ہے جس نے سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی ، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور پھر صدر مملکت کے انتخاب کے موقع پر مشترکہ امیدوار لانے کے بجائے تنہا پرواز کا فیصلہ کیا اور یہ سارے مناصب پلیٹ میں رکھ کر تحریک انصاف کے حوالے کر دئیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قبل از وقت انتخابات بھی پارلیمانی جمہوریت ہی کا تسلسل ہوتے ہیں تاہم اس کا فیصلہ حکمران جماعت کی جانب سے اپنی سہولت اور حالات کی مناسبت سے کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خاں پہلے ہی قبل از وقت انتخابات کا عندیہ دے چکے ہیں تاہم جمہوریت کے تسلسل کا یہی تقاضہ ہے کہ حکمران پارٹی کو اپنے اقتدار کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرنے دی جائے۔ ا گر اس کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہیں ہوں گے تو معمول کے انتخابات میں ماضی کے حکمرانوں کی طرح انہیں بھی گھر بھجوا دیں گے تاہم آصف علی زرداری نہ جانے کس کے اشارے پر اچانک پلٹا کھا کر جارحانہ سیاست کی جانب آ گئے ہیں اور حکومت کے جانے کے دن گننے لگے ہیں جس کے لئے انہوں نے قبل از وقت انتخابات کے کسی اشارے کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھا ہے۔ اگر تو یہ اشارہ وزیراعظم عمران خاں کے بیان میں موجود اشارہ ہے تو اس بارے میں عمران خاں خود ہی کوئی فیصلہ کر لیں گے تاہم آصف زرداری کسی اور کے اشارے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں تو اسے ماضی جیسی جمہوریت مخالف سوچ سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔ جبکہ زرداری صاحب تو ایسے اشاروں کے پس پردہ ممکنہ محرکات کو ان کی تین سال کی میعاد کا طعنہ بھی دے چکے ہیں۔
یقیناً آج حکومتی گورننس کی صورت حال بہتر نہیں ہے اور عوام بھی اپنے لئے غربت ، بے روزگاری، مہنگائی کے بڑھتے مسائل سے عاجز ہوئے نظر آتے ہیں تاہم اپوزیشن کو حکومت کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے راہ راست پر لانے کے لئے منتخب فورموں پر اپنا مو¿ثر کردار ادا کرنا چاہئے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا چاہئے جس سے وہ کسی مرحلہ پر ہاﺅس کے اندر تبدیلی کی پوزیشن میں بھی آ سکتی ہے۔ اپوزیشن کو بہرصورت محاذ آرائی کی ایسی سیاست سے گریز کرنا چاہئے جو جمہوریت مخالف عناصر کے عزائم کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا کرتی ہے۔