پشاور ہائیکورٹ: قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کی توسیع کیلئے حکومت کو نوٹسز جاری
پشاور (بیورو رپورٹ) پشاور ہائی کورٹ نے قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کی توسیع کیلئے خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کردیئے۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس عبدالشکور پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کے روز اس حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار اور سینئر وکیل علی عظیم آفریدی نے عدالت میں توہین عدالت کی درخوست جمع کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معزز عدالت نے ایک ماہ قبل خیبرپختونخوا حکومت کو حکم دیا تھا کہ ایک ماہ کے اندر اندر قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کو توسیع دی جائے تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے جو عدالتی حکم کی توہین ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رواں برس جون میں صوبائی کابینہ نے عدالتی نظام کی قبائلی اضلاع تک توسیع کی منظوری دی تھی جبکہ عدالت عالیہ نے بھی صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانونی مسودہ تیار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے کیونکہ قبائلی اضلاع سے ایف سی آر اور نئے قانون ائی جی آر کا خاتمہ کر دیا گیا تھا لیکن حکومت نے اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔علی عظیم نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ وقت میں قبائلی اضلاع میں کسی قسم کا کوئی عدالتی نظام نہیں اور عوام کو انصاف کے حصول کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔بعدازاں عدالت نے عدالتی نظام کی قبائلی اضلاع تک توسیع کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس حوالے سے کمنٹس طلب کرلیے۔دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے گزشتہ روز ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ عدالتی نظام کی توسیع کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں اور اب صوبائی حکومت ساتوں اضلاع میں سیشن کورٹس اور ضلعی عدالتوں کیلئے آسامیاں تخلیق کرے اور ان کی منظوری دے۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالتی نظام کی توسیع کے ساتھ قبائلی عوام کو ملکی آئین اور قانون کے تحت وہ حقوق حاصل ہوجائیں گے جن سے وہ گزشتہ ساٹھ ستر سالوں سے محروم ہیں۔علاوہ ازیں نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ خیبرپختونخوا جوڈیشل اکیڈمی نے قبائلی اضلاع تک عدالتی نظام کی توسیع کیلئے تب سے کام شروع کر دیا تھا جب فاٹا انضمام کا معاملہ زیرغور تھا۔