پاکستانی سفارتخانوں میں کشمیر سیل قائم کئے جائیں
صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد مسعود خان کی تجویز پر شاہد رشید نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ایوان کارکنان تحریک پاکستان مادر ملت پارک میں کل جماعتی حق خودارادیت کشمیر کانفرنس منعقد کی جس کے مہمان خصوصی صدر آزادکشمیر سردار محمد مسعود خان تھے۔ صدارت جسٹس خلیل الرحمن نے کی۔ کئی ممتاز دوستوں نے بات کی۔ مجھے بھی شاہد رشید نے دعوت دی۔ میں نے ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ مجھ سے پہلے سینئر اور ممتاز صحافی اور دانشور سلمان غنی نے بڑے جذبے اور ولولے سے بات کی ہے۔ اس طرح ہم تمام صحافیوں کی نمائندگی انہوں نے کر دی۔ سلمان غنی ایک زمانے میں روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ تھے۔ انہوں نے ایک زندگی اخبار کے ساتھ گزار دی۔سلمان غنی نے خود کہا کہ میں نوائے وقت مکتب فکر کا آدمی ہوں۔ ان کی گفتگو میں میری گمشدہ آرزو بھی شامل تھی۔
صدر آزادکشمیر سردار محمد مسعودخان نے بہت زبردست خطاب کیا۔ ان کی باتیں خواتین و حضرات نے بڑی توجہ سے سنیں۔ سردار صاحب نے بھارت کے آرمی چیف کے حوالے سے بتایا کہ ہم بھارتی پتھروں کا جواب گولی سے دیتے ہیں۔ صدر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ گولیوں کا ٹھکانہ مجاہد کشمیریوں کا سینہ ہوتا ہے جبکہ پتھر بھارتی فوجیوں کی پیٹھ پر لگتے ہیں اور وہ اوندھے منہ گرے ہوتے ہیں۔
ایک بات بہت بامعنی اور خوبصورت انداز میں سردار مسعود خان نے کہی۔ ’’صرف یہ نہیں کہ کشمیریوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کے دفن کیا جاتا ہے۔ کشمیری پاکستانی پرچم کو اپنے لئے جائے نماز بھی بنا لیتے ہیں۔ پھر ہر طرف یہ آواز ایک گہرے راز کی طور پر بکھر جاتی ہے۔ کشمیر بنے گا پاکستان۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ فوجیں فوجوں کے ساتھ لڑتی ہیں۔ کشمیر میں غیر مسلح لوگ اتنی بڑی سفاک اور ظالم فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور پورے بھارت پر ایک خوف طاری ہے۔‘‘
کبھی کہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 71 سال ہو گئے ہیں۔ اب کشمیر کی بات چھوڑو۔ اس کے جواب میں یہ بات سردار مسعودخان نے کہی کہ ’’تم جو کراچی میں 72 سال سے رہ رہے ہو۔ کیا اسے بھی چھوڑ دو گے؟‘‘ اس نے کہا کہ یہ پاکستان کا حصہ ہے۔ تو میں نے کہا کشمیر بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ یہ بھی سردار صاحب کی تجویز تھی اور اچھی تجویز تھی کہ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں کشمیر سیل قائم کے جائیں۔ سفارتکاروں کوخاص طورپر کشمیر کیلئے آواز بلند کرنا چاہئے۔
مرشد و محبوب مجید نظامی کشمیر کیلئے بہت جذباتی تھے۔ بھارت کے ساتھ ان کی نفرت کشمیر کیلئے بھارت کی سفاکانہ پالیسی ہے۔ انہوں نے ایک دفعہ یہ بات کہہ کر سب کو حیران پریشان کر دیا تھا۔ ’’مجھے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کر بھارت میں پھینک دیا جائے۔‘‘کشمیری اسی انداز میں آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور تحریک چلا رہے ہیں جیسے ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے تحریک پاکستان چلائی تھی۔ ہم نے ہندوئوں کے بغض و عناد کے خلاف انگریزوں کی مخالفت سے زیادہ بڑی تحریک چلائی۔ تحریک کشمیر اور تحریک پاکستان میں کچھ فرق نہیں۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تکمیل پاکستان کیلئے کشمیر کی پاکستان کے ساتھ شمولیت بہت ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت کیلئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پوری دنیا میں بھارت بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔بھارت کے مستقبل کیلئے بہت بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے۔
ایک ہفتہ قبل بھارت نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 240 جنگجوئوں کو ایک سال میں قتل کیا گیا ہے۔ یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا 240 جنگجوئوں کیلئے بھارت نے سات لاکھ فوج وہاںتعینات کر رکھی ہے۔ بھارت کشمیریوں کو شہید کر رہا ہے کہ یہ آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش ہے۔ یہ عسکری طور پر کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ بھارت انتہا کے مظالم کے باوجود ابھی تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
کشمیر کی تحریک آزادی اپنے جوبن پر ہے۔ اس میں 19ماہ کی بچی بھی شامل ہے۔ 1990ء سے لے کر اب تک ایک لاکھ شہریوں کی قربانی مجاہدین دے چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔ یہ مقدمہ صحیح طور پر بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کیلئے انٹرنیشنل اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔
اس مسئلہ کے چار فریق ہیں، پاکستان، بھارت، کشمیر اور اقوام متحدہ۔ میں برادرم سلمان غنی کے اس جملے پر اپنی بات مکمل کر رہا ہوں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس تحریک میں نوجوانوں کا خون شامل ہو جائے‘ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔