سپیکر کورم کی نشاندہی کے باوجود 11 منٹ تک اجلاس کی کارروائی چلاتے رہے
جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس 12روز جاری رہنے کے بعد غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا جبکہ سینٹ کا اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا گیا۔ میاں شہباز شریف کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی منتخب ہونے کے بعد پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بریفنگ دی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق کو پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں لایا گیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دھواں دھار تقریر کی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی میاں شہباز شریف سے الگ ملاقات کی۔ میاں شہباز شریف نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب ہونے کے بعد پبلک اکائونٹس کمیٹی کا پہلا اجلاس 28 دسمبر 2018ء کو طلب کر لیا ہے۔ ابھی تک صورتحال واضح نہیں کہ شہباز شریف چیئرمین کی حیثیت سے خود اپنا پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے یا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر میاں شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری کریں گے۔ پی اے سی کے حکام نے صورت حال کی وضاحت کے لئے سمری سپیکر کو بھجوا دی ہے ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان افتتاحی اجلاس میں جانچ پڑتال کے بارے میں ادارے کی ترجیحات ،سفارشات اور تجاویز سے آگاہ کریں گے۔ 2016-17ء کی 80 آڈٹ رپورٹس پی اے سی کے سپرد کر دی گئی ہیں جن میں تمام وزارتوں اور اداروں کے حسابات کے بارے میں آڈٹ اعتراضات بنائے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے قاعدہ 108 میں یہ کہا گیا ہے کہ پروڈکشن آرڈر کا اختیار سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین مجلس قائمہ کے پاس ہے۔ چیئرمین کمیٹی کو یہ اختیار اس صورت میں ہو گا جب کمیٹی اجلاس کے لئے اسے کسی گرفتار رکن کو بلانے کے لئے استعمال کرنا پڑے۔ تاہم رول میں کسی بھی مجلس قائمہ کے چیئرمین کی گرفتاری کی صورت میں اس کے پروڈکشن آرڈر کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں احتساب کی یکطرفہ کارروائیوں کے بارے میں بولنے کی اجازت نہ ملنے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل اور دیگر جماعتوں کے ارکان شہباز شریف کی قیادت میں واک آؤٹ کر دیا ۔ مرتضیٰ جاوید عباسی اور دیگر بعض دیگر ارکان ایوان میں آئے، اپوزیشن کے رکن شیخ فیاض نے کورم کی نشاندہی کر دی لیکن سپیکر نے کارروائی جاری رکھی۔ سپیکر نے کورم کی نشاندہی پرگنتی کرانے کی بجائے وزیر مملکت مواصلات کو تقریر کیلئے فلور دے دیا۔ انہوں نے بل پیش کر دیا جس پر اپوزیشن نے ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ اس دوران دوسرا بل پیش کرنے کے لئے سپیکر وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو فلور دے دیا۔ انہوں نے معذور افراد کی عزت و وقار کو تسلیم کرنے کی بابت کاوشوں کو فروغ دینے اور اسلامی احکامات و آئین کے مطابق انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا بل متعارف کروایا۔
حکومت نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں گھر کے باہر پولیس پکٹ کو مسمار کر دیا ہے۔ جمعہ کو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات طارق بشیر چیمہ کا لاعلمی کہا جائے یا کچھ اور ۔ انہوں نے کہا کہ وزراء کے گھروں کے باہر سے بھی جنگلے اور باڑ ہٹائے جا رہے ہیں کوئی مبرا نہیں ہے جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ اس معاملے پر وزیر مملکت برائے داخلہ سے رابطہ کیا جائے گا۔ صرف مولانا اسعد محمود اور ان کے والد مولانا فضل الرحمن کے گھر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے اس کا نوٹس لینے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ قومی اسمبلی نے بچوں کے حقوق سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے یہ ایوان پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے تمام قانونی حقوق کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ ہر بچے کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری اپنی تقریر کے دوران بولنے پر سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی سے الجھ پڑیں اور کہا کہ’’ اب آپ ڈپٹی سپیکر نہیں ہیں، آپ چپ کر کے بیٹھیں۔ سینٹ میں چیئرمین سینٹ کو ایوان اور کونسل آف چیئرپرسنز کی جانب سے مختلف معاملات پر منظورشدہ کمیٹیوں کی سفارشات پر عملدرآمد کے لئے طریقہ کار وضع کرنے سے متعلق خصوصی کمیٹی کے تعین کے حوالے سے تحریک کی منظوری دیدی۔سینٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ صدر مملکت کے پارلیمنٹ سے خطاب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قومی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے، صدر پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اتحاد کی علامت ہوتے ہیں، انہیں ریاست اور عوام کے لئے سوچنا چاہیے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ میں بطور صدر نہیں بلکہ تحریک انصاف کا رکن کے طور پر خطاب کیا۔