• news

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ،سی پیک منصوبے پر قرار داد متفقہ منظور، اپوزیشن کا احتجاج

کوئٹہ(بیورو رپورٹ)بلوچستان اسمبلی میں پاک چین اقتصادی راہداری کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے سے قومی کمشن کی تشکیل اور سی پیک منصوبے میں بلوچستان کے حوالے سے تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر حق ادا کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعے کے روز تقریباً پچاس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیرصدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کے رکن سید فضل آغا نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ اجلاس میں بھی نشاندہی کی تھی آج پھر کہہ رہے ہیں حکومتی اراکین ا یوان کو سنجیدگی سے لیں اور ایوان میں اپنی موجودگی اور کارروائی کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں جن محکموں سے متعلق سوالات ہوں ان محکموں کے سیکرٹری صاحبان کو اپنی موجودگی یقینی بنانی چاہئے انہوں نے کہا کہ ہم جو سوالات جمع کراتے ہیں ان کے جوابات بروقت نہیں دیئے جاتے اگر حکومت اسی طرح سے چلانی ہے تو پھر تمام ایم پی اے صاحبان کو کہہ دیں کہ وہ گھر پر بیٹھ جائیں ۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بھی سید فضل آغا ، اختر حسین لانگو اور ثناء بلوچ نے جوابات نہ آنے پر احتجاج کیا بعدازاں سپیکر نے وقفہ سوالات اگلے اجلاس تک ملتوی کرنے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے مورخہ 13دسمبر2018ء کی رولنگ اور کارروائی کے تناظر میں بلوچستان میں پینے کے صاف پانی سے محرومی ، اور 70فیصد آبادی کو پانی کی عدم فراہمی پر عوام میں احساس محرومی اور تشویش پائی جاتی ہے اس لئے اسمبلی کی کارروائی روک کر اس اہم نوعیت کے عوامی مسئلے کو زیربحث لایا جائے ۔بعدازاں سپیکر نے تحریک التواء کی منظوری کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک التواء پر 24دسمبر کے اجلاس میں بحث کی جائے گی ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے سی پیک سے متعلق قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور سی پیک کی مدمیں ملک بھر میں62ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی ہے لیکن بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا جس کی وجہ سے صوبہ کے عوام میں احساس محرومی پائی جاتی ہے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کی بابت فوری طور پر ایک قومی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کرے بلوچستان کو سی پیک منصوبے کی تفصیلات اور رقبے کی بنیاد پر اس کا حق ادا کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبہ کے عوام میں پائی جانے والے احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو ۔ سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ثناء بلوچ نے ایک انتہائی اہم مسئلے پر قرار داد پیش کی ہے جس کی ہر بلوچستانی بھرپور حمایت کرتا ہے ۔پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت یہاں انرجی پارک بننے تھے ہماری حکومت میں سی پیک میں شامل کئے جانے والے ماس ٹرانزٹ ٹرین اور کوئٹہ کو پٹ فیڈر کینال سے پانی کی فراہمی کے منصوبے موجودہ حکومت نے ختم کردیئے ہیں ۔ اس منصوبے سے اب تک بلوچستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہمیں صوبے کے ساحل ،و سائل کے دفاع کے لئے ایک ہو کر مشترکہ جنگ لڑنی ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔ اصغرخان اچکزئی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک و قوم کو اعتماد میں لئے بغیر سعودی حکومت سے مشروط طور پر ایک بھاری قرضہ لیا گیا ہے جس سے اسٹریٹجک اور معاشی اثرات ملک بالخصوص بلوچستان پر پڑیں گے لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ مشروط طو رپر لئے جانے والے اس بھاری قرضے کی تمام تر تفصیلات سے نہ صرف اس ایوان بلکہ ملک و قوم کو بھی آگاہ کرے ۔انہوں نے کہا کہ ہم وفاق سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے فنڈز لینے سے قبل پارلیمنٹ اور پوری قوم کو اعتماد میں لیا جائے کہ سعودی عرب سے کن شرائط پر یہ پیسے مل رہے ہیں اور ہم نے کن شرائط کے تحت یہ پیسے واپس کرنے ہیں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چائنہ کے مابین سی پیک سے متعلق طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات سے تاحال صوبے کے عوام حتیٰ کہ اراکین اسمبلی کو بھی آگاہ اور اعتماد میں نہیںلیا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام اورا راکین اسمبلی میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ سی پیک کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات کی فراہمی اور اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام اور اراکین اسمبلی میں پائی جانے والی تشویش کاازالہ ممکن ہو ۔صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے نواب محمد اسلم رئیسانی کی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جب میں نواب محمد اسلم رئیسانی کی کابینہ میں وزیر تھا تب بھی نواب رئیسانی نے بلوچستان کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد کی جب نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بنے تو صورتحال یہ تھی کہ ہمیں تنخواہوں کے لئے بھی اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا تھا تاہم ان کی کوششوں سے این ایف سی ایوارڈ اور پھر 18ویں ترمیم کے تحت بلوچستان کو اربوں روپے ملنا شروع ہوئے ،انہوں نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سے استدعا کی کہ وہ وفاق سے بات کرکے سی پیک معاہدے کو بلوچستان اسمبلی کے فلور پر لانے کے لئے کردار اد اکریں بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔ صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی کو فعال کرنے کے بعد زمینداروں کے ساتھ مل کر زراعت کے حوالے سے مسائل کا حل نکالیں گے ۔تحریک انصاف کے رکن مبین خان خلجی نے ایوان کی توجہ کوئٹہ شہر میں صفائی کی ابتر صورتحال کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایوان کو شہر بھر کے کونسلران کو فراہم کئے جانے والے خاکروبوں کی فہرست فراہم کی جائے اور کوئٹہ شہر میں بنائے جانے والے ہسپتالوں اور نئی عمارتوںمیں بلڈنگ کوڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کی جائے ۔صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں عالمی سازش کے تحت حالات خراب کئے گئے لیکن اب سیکورٹی فورسز کی کوششوں سے حالات بہتر ہوئے ہیں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغواء کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جو تحقیقات کررہی ہے اور ہم اغواء کاروں کے قریب پہنچ چکے ہیں امید ہے کہ آئند چند روز میں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو بازیاب اور تاجر حاجی محمد نواز مینگل کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا جائے گا،وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ حکومت سروس سٹرکچر کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے ہمیں سٹرکچرل ریفارمز کی بہت ضرورت ہے سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی اس معاملے پر کام کررہے ہیں آئندہ کابینہ اجلاس میں اس پر بات ہوگی، بعدازاں ڈپٹی سپیکر سردار بابر موسیٰ خیل نے اسمبلی کا اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔

ای پیپر-دی نیشن