یادرفتگان.... ملک خالد جاوید کی یاد میں ۔۔۔ گلزار ملک
بھائی پھیرو میں کئی شخصیات و کردار پیدا ہوئے جنہوں نے آنے والی نسلوں کے ذہنوں کے اندر گھر کر لیا ایسے انسانوں و کرداروں میں بھائی پھیرو کی ایک معروف سماجی و کاروباری شخصیت ملک خالد جاوید (مرحوم) کا بھی شمار ہوتا ہے۔ جو ایک درویش صفت انسان دوست، ہر دلعزیز اورشفیق القلب خداداد صلاحیتوں کے بھرپور مالک تھے۔ کاروباری حلقوں میں خلوص اور اچھے کردار و اخلاق کی بدولت بے حد مقبول شخصیت کے حامل تھے وہ ایک اچھی شہرت اور کبھی نہ بھولنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ بھائی پھیرو پریس کلب کے سینئر نائب صدر گلزار ملک کے چچازاد بڑے کزن تھے اور ایک بہترین دوست تھے۔ مرحوم اپنی ایمانداری اور خدا ترسی میں اپنے در پر آنے والے کسی شخص کو خالی نہیں جانے دیتے تھے۔ جو شخص ایک بار آپ کو مل لیتا تھا خواہ وہ دکان پر گاہک ہی بن کر کیوں نہ آیا ہو وہ انکے اچھے اخلاق اور پرخلوص محبت کی وجہ سے پھر انکا ہی ہو کر رہ جاتا تھا۔
وہ سماجی خدمات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر پوری زندگی جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار حاجی محمد رمضان آف کامونگل سے نہ صرف بہت پیار کرتے تھے بلکہ انہیں سپورٹ بھی کرتے تھے۔ گذشتہ عام انتخابات کے دوران انتخابی مہم کے سلسلہ میں جب حاجی محمد رمضان صاحب مین بازار بھائی پھیرو کے دورے پر آئے تو مرحوم نے انہیں نوٹوں اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر ضلع قصور حافظ نذیر احمد ایڈووکیٹ کے ساتھ بھی انکی گہری دوستی تھی اکثر ان سے سماجی و سیاسی گپ شپ کی غرض سے انکے گا¶ں جمبر کلاں جایا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو راقم بھی انکے ہمراہ ہوتا۔ آج سے 4 سال قبل جب آپ کی بیوی شدید بیمار ہونے کے بعد انتقال کر گئی تو اس دن سے لے کر مجھے یہی کہتے رہے کہ یار زندگی کے ساتھی کے بنا جینا بھی کوئی زندگی ہے بس یار زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اب تو میری ایک خواہش ہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنے تمام بچوں کی شادیاں کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہتا ہوں۔ مگر زندگی نے انہیں ایسا کرنے کی مہلت نہ دی وہ اپنی زندگی میں صرف ایک بیٹے اور بیٹی کی شادی کر سکے میاں محمد بخش کا ایک شعر اکثر سنایا کرتے تھے کہ
کپڑا پھٹے تے لگے تروپا .... دل پھٹے کس سینا
سجنا باج محمد بخشا.... کی مرنا کی جینا
ملک خالد جاوید مرحوم 13 دسمبر 2018ءبروز جمعرات کی صبح کو اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے ملے۔ اب تو صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ خوبیاں اتنی تو نہیں کہ کسی کے دل میں گھر بنا سکیں لیکن کچھ ایسے پل ضرور چھوڑ جائیں گے کہ بھولنا آسان نہ ہو گا۔