ناصر زیدی : اکادمی ادبیات پاکستان اور حکومتوں سےگزارشات
18 اپریل 1943ءسے لیکر تادم حاضر وہ صرف اور صرف قلم کا ساتھی رہا ہے۔ قلم بھی وہ جو صرف دل کا ترجمان ہے لیکن اب 75 برسوں سے رواں دواں قلم‘ سراپا محبت قلم پہلے کی طرح رواں نہیں رہا۔ ناصر زیدی فالج کے زیراثر ہے۔ اگر اس عمر میں قلم اور زبان ساتھ دے رہے ہوں تب بھی غالب کے بقول صورتحال یہ ہوتی ہے کہ :
ہو گئے مضمحل قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
ناصر زیدی نے مظفر گڑھ یو پی سے لاہور اور اسلام آباد کی فضاﺅں تک ایک بھرپور جدوجہد کی حامل زندگی گزاری ہے۔ ہفت روزہ حمایت اسلام سے کالم نگاری کا آغاز کرنے اور تاریخ ساز ادبی جریدے ادب لطیف کی برسوں تک ادارتی ذمہ داریاں نبھانے تک اور پھر صدارتی تقریر نویسی سے لیکر پاکستان میں ادبی کالم نگاری تک ناصر زیدی نے ہزاروں دیئے جلائے ہیں۔ ادبی ناخواندگی کا علاج کیا ہے۔ کتنوں کو قلم کی تربیت دی ہے۔ خود ”ڈوبتے چاند کا منظر‘ وصال‘ التفات“ جیسے شاعری کے مجموعے تخلیق کئے ہیں۔ قائداعظم اور شاعر مشرق کے حوالے سے فکر انگیز کتابیں تالیف کی ہیں ۔ اس کے علاوہ اردو اور پنجابی زبان میں متعدد موضوعات پر کتابیں پیش کرکے اہل علم و ادب سے داد وصول کی ہے اور 75 برسوں تک خود چراغ کی مانند روشنی بکھیرنے والا یہ شخص ان دنوں فالج کے ہاتھوں ایسا بے بس ہے کہ دوسروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ زندگی ضابطوں کی پابند ہے اور ناصر زیدی ضابطوں خاص طور پر شعر و ادب کے ضابطوں پر ہر لمحہ نظر رکھنے والا منفرد صاحب نظر ہے۔ پاکستان رائٹر گلڈ کے اجلاسوں میں جس کی مرکزی مجلس عاملہ کا وہ رکن ہے (اور ماضی میں قائم مقام سیکرٹری جنرل بھی رہ چکا ہے) ناصر زیدی نے آئین کے حوالے سے ہمیشہ ساتھیوں کی راہنمائی کی ہے ادبی اور خاص طور پر شاعری کے حوالے سے اس کی نظر تقریباً ساری تخلیقی دنیا کا احاطہ کئے رہی ہے۔ چنانچہ اپنے کالموں کے ذریعے ناصر نے مختلف شعراءکی تخلیقات کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائے رکھی ہے۔ جہاں کسی نے کوئی شعر غلط املا یا اوزان میں کمی بیشی کے ساتھ استعمال کیا ناصر نے اس کی گرفت بھی کی اور شعر کو اس کی اصل صورت میں پیش بھی کیا۔ ادب کی اس طرح بے لوث خدمت کرنے والے بہت کم ہیں۔ برسوں پہلے ناصر زیدی کے تخلیق کردہ اشعار آج کی صورتحال کے اس طرح ترجمان بن گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ شاعر نے مستقبل میں جھانکنے کے کامیاب تجربے کئے ہوں۔
پھول صحرا میں کھلا دوکوئی
میں اکیلا ہوں صدا دو کوئی
بھلا کب تک کوئی تنہا رہے گا
کہاں تک یہ نگر سونا رہے گا
آنکھوں میں چبھ رہی ہے گزرتی رتوں کی دھوپ
جلوہ دکھائے اب تو نئے موسموں کی دھوپ
شام فراق گزرے تو سورج طلوع ہو
دل چاہتا ہے پھر سے وہی قربتوں کی دھوپ
ناصر زیدی نے زندگی بھر قلم اور زبان سے کام لیا اور گزر بسرام کیا۔ اب قلم اور زبان دونوں کے حوالے سے روزگار کا سلسلہ منقطع ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ عالم پیری میں اور بیماری کی اسیری میں اہل قلم کی دستگیری کرے گی۔ ناصر زیدی جیسا خوددار اب تک خود ہاتھ نہیں پھیلا سکا تو اکادمی ادبیات کے ذمہ داران کو خود آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامنا چاہئے تھا۔ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے علم و ادب اور قلم اور اہل قلم کی خدمت کیلئے کئی اداروں کے حوالے سے فنڈز مختص کر رکھے ہیں۔ کیا کوئی ناصر زیدی کے حالات سے باخبر نہیں جس کی روزانہ کی ادویات پر بھاری اخراجات ہو رہے ہیں اور دوست اور عزیز ان کو تاحال سنبھالے ہوئے ہیں۔ ناصر کے ان گنت چاہنے والے حکومت کی طرف سے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے کسی اچھے فیصلے کے منتظر ہیں۔