شہید بینظیر بھٹو کی 11 ویں برسی
27 دسمبر 2007ء کی شام پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیربھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کرکے رہائش گاہ روانہ ہو رہی تھیں کہ دہشت گردی کی واردات میں شہید ہو گئیں۔ یہ اتنا بڑا سانحہ تھاکہ پوری قوم سوگ میں ڈوب گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نوازشریف سب سے پہلے ہسپتال پہنچے جو اس بات کی علامت تھی کہ محب وطن لوگ محترمہ بینظیربھٹو پر قاتلانہ حملہ‘ قوم کی ایک سچی ہمدرد اور خیرخواہ پر حملہ اور انکی شہادت کو صرف پی پی پی کا نہیں‘ پورے ملک کا نقصان سمجھتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جرأت مند‘ بے خوف اور نڈر سیاسی رہنما تھیں۔ ملک و قوم اور جمہوریت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتی تھیں۔ وہ جلاوطنی میں تھیں تو صدرمشرف کی طرف سے انہیں برابر پیغام مل رہے تھے کہ’’ عام انتخابات سے پہلے وطن لوٹنے کی کوشش کی تو نتائج کی وہ خود ذمہ دار ہونگی۔‘‘ لیکن محترمہ ایسی دھمکیوں کو کب خاطر میں لانے والی تھیں۔ 18 اکتوبر 2007ء کو دبئی سے کراچی پہنچ گئیں۔ ان پر پہلا قاتلانہ حملہ 18 اکتوبر کو ان کے جلوس پر ہوا جس میں 149 افراد جاں بحق اور 402 زخمی ہوئے۔ کوئی اور ہوتا تو اتنے بڑے سانحہ کے بعد میدان چھوڑ بیٹھتا‘ لیکن محترمہ کا عزم ذرا بھی متزلزل نہ ہوا۔ وہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے میدان عمل میں سرگرم ہوگئیں ۔ 27 دسمبر کی خون آشام شام کو دختر مشرق اور وفاق کی علامت محترمہ بینظیربھٹو کو شہیدکر دیا گیا۔ یوں بینظیربھٹو نے اپنے والد مرحوم کی طرح پاکستان کوخوشحال‘پرامن‘ مستحکم اور ناقابل تسخیر مملکت بنانے کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ ادھورا رہ گیا۔ مرحومہ کا تعلق ایک وڈیرے خاندان سے تھا۔ ساری تعلیم باہر ہوئی‘ اسکے باوجود وہ حد درجہ غریب پرور اور مشرقی اور اسلامی روایات کی سختی سے پابند تھیں۔ ان کی شہادت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ 5 سال پیپلزپارٹی کی حکومت بھی رہی‘ لیکن مجرموں کا سراغ لگا اور نہ انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جا سکا۔ انتظامی سطح پر یہ بہت بڑی خامی ہے کہ پاکستان کے وزرائے اعظم کے ایسے اندھے قتل کے پس پردہ محرکات سے قوم کو آج تک آگاہ نہیں کیا گیا۔تاہم ’’بھٹو کا ورثہ‘‘ ایسی جاندار قوت ہے کہ وہ جسمانی طورپر منظرعام سے ہٹا دیئے جاتے رہے ‘لیکن پھر بھی انہیں غریب عوام کی خدمت کے مشن سے نہیں ہٹایا جا سکا۔ بھٹو مرحوم کو پھانسی ہوئی تو بینظیر نے علم اٹھا لیا۔ بینظیر کو راستے سے ہٹایا گیا تو اسے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے تھام لیا۔ آج قومی سیاست میں بلاول بھٹو ہی بھٹو لیگیسی کے حقیقی امین اور پیپلزپارٹی کے تن مردہ میں نئی جان ڈالتے نظر آتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ وہ اسلاف سے بھی آگے نکل جائیں!