بھارت کیلئے امریکی سرپرستی ترک کئے بغیر افغان امن عمل کی کامیابی یقینی نہیں ہو سکتی
پاکستان کی کوششوں سے افغان حکومت اور طالبان کی باہمی مذاکرات پر آمادگی اور چین کا اظہار اطمینان
وزارت خارجہ پاکستان کے سینئر عہدیداروں نے بتایا ہے کہ پاکستان کی کوششوں کے باعث افغان حکومت اور طالبان باہمی مذاکرات کیلئے رضامند ہوگئے ہیں جو اسلام آباد کیلئے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ ان عہدیداروں کے مطابق ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ مذاکرات کب ہونگے تاہم دونوں فریقین اس بارے میں آئندہ چند دنوں میں شرائط طے کرینگے۔ انکے بقول افغان حکام نے بھی پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان پختہ اقدامات پر کریڈٹ کا مستحق ہے۔ اسی طرح چین نے بھی افغانستان کی قیادت میں امن عمل کی حمایت کی ہے اور اس کیلئے پاکستان کی جاری کوششوں کو سراہا ہے۔ دفتر خارجہ کے اس حوالے سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور انکے ہم منصب چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے مابین بیجنگ میں ہونیوالی ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں اور افغانستان کی صورتحال سمیت علاقائی امور پر مفصل تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر افغانستان میں تشکیل پانے والے نئے سیاسی منظرنامے پر بات چیت کرتے ہوئے طرفین نے اس معاملہ پر مشترکہ موقف اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے چین‘ افغانستان‘ پاکستان کے سہ فریقی لائحہ عمل کے تحت افغانستان میں امن و ترقی کے عمل کو آگے بڑھانے میں چین کے اہم کردار کو سراہا اور دوطرفہ مضبوط شراکت داری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم جہت کا اضافہ کیا ہے۔ اس موقع پر چین کے وزیر خارجہ نے افغانستان میں امن و مفاہمت کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین آزمودہ شراکت داری باہمی احترام‘ اعتماد اور دوستی کے مضبوط رشتے کی بنیاد پر استوار ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ اس پورے خطے کے امن و سلامتی کا افغانستان کے امن پر ہی انحصار ہے جبکہ افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے بھی بنیادی طور پر اس خطے کے ممالک کا کردار ہی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ افغانستان کا امن امریکی نائن الیون کے بعد اس پر نیٹو فورسز کی چڑھائی سے سبوتاژ ہوا تھا جبکہ یہ جنگ سراسر امریکی مفادات کی جنگ تھی جس میں افغانوں کی نمائندہ طالبان حکومت کو جبراً ختم کیا گیا اور اسکے ردعمل میں اپنی تابناک روایات کے مطابق افغان باشندوں نے اپنی دھرتی پر نیٹو فورسز کی سخت مزاحمت شروع کی تو اس سے افغانستان ہی نہیں‘ پورے علاقے کا امن و سکون غارت ہوگیا۔ ہمارا یہ المیہ ہوا کہ اس وقت کے کمانڈو جرنیلی آمر مشرف نے محض اپنے یکاوتنہاء اقتدار کی بقاء کی خاطر امریکی پینٹاگون کی ایک ہی ٹیلی فونک دھمکی پر ڈھیر ہو کر امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرلیا اور اس طرح افغانستان میں شروع کی گئی نیٹو فورسز کی پرائی جنگ میں پاکستان کو فریق بنا کر اس ارض وطن کی تباہی کی بھی بنیاد رکھ دی۔
قیام پاکستان کے بعد اگرچہ ہمیں اپنے اس پڑوسی برادر مسلم ملک افغانستان کی جانب سے کبھی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے پاکستان کیخلاف واحد ووٹ افغانستان ہی کی جانب سے آیا تھا جس کے بعد ہر افغان حکمران نے پاکستان کی مخالفت اپنی پالیسی کا حصہ بنائے رکھی جو ہمارے ساتھ افغانستان کے خدا واسطے کے بیر کا عکاس ہے تاہم سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ میں دنیا کی اس دوسری بڑی قوت کو ناکوں چنے چبوانے والے افغان مجاہدین کا پاکستان کے ساتھ تعلق استوار ہونے اور انہیں پاکستان کی تربیت و کمک ملنے کے باعث پاکستان افغانستان روایتی سردمہری والے تعلقات میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی اور پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پانے سے پاکستان افغانستان خوشگوار دوستانہ مراسم کا بھی آغاز ہوگیا جس سے پاکستان افغانستان باہمی تعاون سے علاقائی امن و سلامتی کے تحفظ اور دونوں ممالک میں ترقی و خوشحالی کے مشترکہ اقدامات اٹھانے کے آثار بھی پیدا ہوگئے مگر نیٹو فورسز کی افغانستان پر چڑھائی کے بعد ہمارے امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننے سے پاک افغان فروغ پانے والے تعلقات خراب ہو کر پھر پوائنٹ آف نوریٹرن کی جانب چلے گئے۔ ہماری ارض وطن بھی افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے باعث بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی اور ہماری مسلح افواج اب تک ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے اپریشنز میں مصروف ہیں جبکہ افغانستان کا جہاں نیٹو فورسز نے تورابورا بنایا وہیں کٹھ پتلی کابل حکمرانوں کو افغانستان میں نیٹو فورسز کیلئے سہولتیں فراہم کرنے کا سبق سکھانے کیلئے طالبان نے بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کرکے امن و سلامتی کو اس خطے سے دور بھگا دیا۔ اس علاقائی بدامنی کا بھارت نے بھی ہماری سلامتی کیخلاف بھرپور فائدہ اٹھایا اور کٹھ پتلی کابل انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے افغانستان میں اپنے دہشت گردوں کو تربیت دے کر وہاں سے پاکستان بھجوانا شروع کردیا جنہوں نے اس ارض وطن کو بھارتی ایجنڈا کے مطابق اجاڑنے‘ اکھاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے اس امریکی جنگ کا خمیازہ اپنی سکیورٹی فورسز کے دس ہزار افسران اور جوانوں سمیت ملک کے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانی قربانیوں اور اربوں ڈالر کے مالی نقصانات کی صورت میں بھگتا ہے۔ اگر کابل انتظامیہ کی ہمارے ساتھ بلاوجہ کی مخاصمت نہ ہوتی تو باہمی تعاون سے اس خطہ کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کی بہت پہلے راہ ہموار ہوجاتی اور افغانستان میں امریکی جنگ کا بھی کوئی جواز باقی نہ رہتا۔ تاہم امریکہ نے اس خطے میں اپنا اثرونفوذ بڑھانے کیلئے بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپ دی جس سے حالات مزید کشیدہ ہوئے کیونکہ بھارت نے ہمارے ساتھ خبث باطن کی بنیاد پر افغان حکمرانوں کے ساتھ سازباز کا سلسلہ بڑھایا چنانچہ امریکی کٹھ پتلی کرزئی بھی مسلسل امریکی بھارتی مفادات کی نگہداشت کرتے ہوئے ہمارے ساتھ دشمنی پر اترے رہے جن کے بعد اشرف غنی نے بھی وہی ڈگر اختیار کرلی۔ اس طرح ہمیں سب سے زیادہ نقصان کابل انتظامیہ کے اس طرز عمل کے باعث ہی پہنچا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی بھارتی سازشوں میں اسکی ممدومعاون رہی ہے۔
اب جبکہ افغان مزاحمت کاروں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھا کر افغانستان سے نیٹو فورسز کے واپس جانے کے بعد امریکہ بھی وہاں سے اپنی باقیماندہ فورسز کو محفوظ طریقے سے واپس لے جانا چاہتا ہے جس کیلئے اسے افغانستان میں امن کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان چین مشترکہ راہداری منصوبہ کو اپریشنل کرنے کیلئے ان دونوں ممالک کو پورے خطے کا امن درکار ہے جس کی ضمانت افغانستان کے امن سے ہی مل سکتی ہے تو امریکہ کے علاوہ افغان امن پاکستان اور چین کی بھی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کیلئے پاکستان نے ہی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے ذریعے عملی پیش رفت کا آغاز کیا جسے بھارت کی جانب سے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی گئیں تاہم اسی پیش رفت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کو افغان امن عمل کیلئے ہماری اہمیت کا ادراک ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کے ذریعے افغان امن عمل کی کوششوں کا آغاز کیا گیا جنہوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مختلف قابل عمل تجاویز پیش کیں اور بالآخر پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان کے مابین عرب سرزمین پر دوطرفہ مذاکرات کی فضا ہموار ہوگئی۔ اب تک ان مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں جن میں طرفین نے اپنی اپنی تجاویز اور شرائط پیش کی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام اور اس میں طالبان کی نمائندگی پر آمادہ ہوچکا ہے جبکہ طالبان نے مذاکرات میں اپنی وہی حکومت بحال کرنے کی شرط رکھی ہے جو نیٹو فورسز کے افغانستان میں داخل ہونے کے وقت موجود تھی۔ طالبان نمائندوں کے بقول امریکہ نے انکی نمائندہ منتخب حکومت ناجائز طور پر جبراً ختم کی تھی اس لئے وہ اپنی اسی حکومت کا تسلسل چاہتے ہیں۔ اب مذاکرات کا تیسرا دور سعودی عرب میں طے ہے جس میں پاکستان کے مؤثر کردار سے کسی عملی پیش رفت کی توقع ہے اور امریکہ کے ساتھ ساتھ برادر چین بھی افغان امن عمل کیلئے پاکستان کے کردار پر اس لئے مطمئن ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی سی پیک کے اپریشنل ہونے کی ضمانت بنے گی۔ یہی ہماری اپنی بھی ضرورت ہے اس لئے امن عمل میں طرفین کی سنجیدگی بالآخر اس پورے خطے میں امن کی بحالی پر منتج ہو سکتی ہے۔ طرفین کو اب بہرصورت بھارت کے سازشی کردار سے ہوشیار اور محتاط رہنا اور اسکی امن دشمن سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس خطے کو دہشت گردی اور بدامنی نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا ازالہ اب طرفین کی امن عمل کیلئے پرخلوص کوششوں سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر رکھنا ہوگی کہ بھارت کی سرپرستی ترک کئے بغیر افغان امن عمل کی کوششوں کی کامیابی کبھی یقینی نہیں ہو پائے گی۔