خواجہء بزرگ
حضرت خواجہ معین الدین اجمیری تاریخ اسلام کے ان رجالِ کار میں سے ایک ہیں جن کی تبلیغی ،علمی اورروحانی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔آپ سادات حسینی میں سے ہیں اوربارہویں پشت میں آپ کا شجرئہ نسب امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والدِ گرامی مرتبت کا اسم گرامی سید غیاث الدین حسن ہے۔ جو نہایت صالح، متقی تزکیہ وطہارت سے مزین شخصیت تھے۔ مالی طور پر بھی نہایت آسودہ حال تھے ۔آپ سجستان سے ہجرت کرکے خراسان میں آباد ہوگئے تھے۔ والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور سادات حسنی سے تعلق رکھتی ہیں۔
سید صباح الدین عبدالرحمن کی تحقیق کے مطابق آپ کا سن ولادت ۵۳۰ہجری ہے۔ ابتدائی تعلیم والدماجد کی نگرانی میں شروع ہوئی ،لیکن ابھی عنفوانِ شباب کے مرحلے میں تھے کہ والد ِ ماجد کا وصال ہوگیا۔ ان کے وصال کے بعد ورثے میں ملنے والے باغات کی نگہداری فرمانے لگے لیکن ایک درویش ابراہیم قندوزی سے ملاقات کے بعد دل زراعت وباغبانی سے اچاٹ ہوگیا اورحصولِ علم کا شوق پیدا ہوا، ورثے میں ملنے والی متاعِ دنیا کو اللہ کے راستے میں خیرات کیا اوربخارا وسمر قند کے علمی مراکز کا رخ کیا۔ جہاں حفظ قرآن کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے ۔اورتمام متد اول علوم وفنون کی تحصیل کی۔ تکمیل علوم کے بعد روحانی تربیت کی طرف راغب ہوئے اوراس زمانے کی مشہور علمی وروحانی شخصیت حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت اقدس میں بغداد پہنچے اوران کی صحبت اختیار کی۔تقریباً ۲۲سال تک ان کی تربیت ہی میں رہے۔حضرت خواجہ عثمان ہارونی سیاحت کے بے حد مشتاق تھے اوران کا یہ سفر اہل علم وعرفان سے ملاقات کی خاطرہوا کرتا تھا۔ان کی رفاقت میں خواجہ معین الدین کو وقت کے مشاہیر سے ملاقات اوراکتساب کا موقع میسر آیا۔خواجہ عثمان ہارونی ؒ آپ کی شخصیت کی تکمیل وتربیت سے بڑے احسن طریقے سے عہدہ براہ ہوئے۔ ۵۲سال کی عمر میں آپ کو مسند ارشاد پر فائز کیا گیا اورعازم ہندوستان ہونے کا حکم ہوا۔ آپ کے ساتھ حضرت عثمان ہارونی کے تربیت یافتہ ۴۰ جلیل القدر مبلغین کی ایک جماعت تھی ۔ہندوستان سے آنے سے پہلے آپ نے خود بھی دیار وامصار کی سیاحت کی بڑی بڑی علمی وروحانی شخصیات سے ملاقات کی اوران سے مذاکرہ علمی کیا۔
اجمیر میں مستقل قیام سے پہلے کچھ عرصہ لاہور، دلی ، اورملتان میں قیام پزیر رہے۔ اوربرصغیر کی تہذیب وثقافت اورتمدن کا گہرا مطالعہ کیا،یہاں کے رسم ورواج اورزبان سے آشنائی پیدا کی ۔ اوراس کے بعد اجمیر کو اپنا مستقر بنایا۔ اجمیرمیں اس وقت پر تھوی راج کی حکمرانی تھی ۔ جس کا شمار طاقت ور،جنگ آزمااورمتعصب لوگوں میں ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب نے ایک ایسی جماعت مبلغین کے ساتھ وہاں قیام کیا۔جس کے ساتھ کوئی ہتھیار اورلائو لشکر نہیں تھا۔ لیکن آپ نے اپنی حکمت اورمحبت سے جلد ہی پورے ماحول کو تسخیر کرلیا۔