• news

اداروں کی غلطیوں کا سدباب ہماری ذمہ داری کیا حکومت چاہتی ہے عدلیہ مفلوج ہو جائے : چیف جسٹس

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں پر نہ کرنے کیخلاف حکومت پر برہی کا اظہار کیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشیاق اے خان کی سرزنش کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ کیا حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ مفلوج ہو جائے؟ نگران حکومت کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی سفارش کی تھی۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں 4 ججز کام کر رہے ہیں اور کام اتنا زیادہ ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی تعداد بڑھانے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔جب بل کا ڈرافٹ پیش کرنا تھا تو اپوزیشن نے مخالفت کر دی۔ججز کی تعداد بڑھانے کیلئے آرڈیننس کی تجویز بھی زیر غور تھی لیکن اسمبلی کا سیشن چل رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو کہتا ہوں کہ وہ آپ سے وضاحت مانگے یا پھر از خود نوٹس لیتا ہوں۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد کم ہونے سے ڈویژن بنچ بھی نہیں بن سکتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں فوری طور پر پوری کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کو ریلوے کے ڈی جی لیگل طاہر پرویز کی تقرری کیخلاف کیس کا فیصلہ ایک ہفتے میں سنانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کو تعریفیں کرنے سے روکدیا۔ ڈی جی لیگل ریلوے طاہر پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ایم پی ون افسر کو طریقہ کار سے ہٹ کر نوکری سے نہیں نکالا جا سکتا۔ وزیر ریلوے کے الزامات پر مجھے نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔میری برطرفی کا اختیار وزیر کو نہیں وزیراعظم کو حاصل ہے۔آج تک وزیراعظم کے پاس میری فائل گئی ہی نہیں۔سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ کیا تو مجھے اپیل کے حق سے محروم ہونا پڑے گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے بھائیوں کی میرے ساتھ تعلق داری ہے۔ آپ کا اپیل کا حق سلب نہ ہو اسلئے معاملے کو ہائیکورٹ بھجوا رہے ہیں۔اس عدالت میں تعلق داری کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے ورنہ اس کیس کو ایک مثال بنا دیتا۔ چیف جسٹس نے کہاریلوے سے آپ کا تعلق کلائنٹ اور وکیل کا ہے۔اگر کلائنٹ کو آپ پر اعتماد نہیں رہا تو نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ایک نوکری کیلئے عزت کو کیوں داﺅ پر لگا رہے ہیں۔آپ کیسے بھرتی ہوئے سب عدالت کے علم میں ہے۔وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ آپ نے قوم پر بڑااحسان کیا۔میں ڈی جی لیگل کو جانتا تک نہیں۔چیف جسٹس نے شیخ رشید کو اپنی تعریفیں کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ تعریفیں مت کریں مجھے کوفت ہوتی ہے۔میں نے کوئی احسان نہیں کیا اپنا فرض نبھایا۔ دوران سماعت ڈی جی لیگل اور وزیرریلوے کی نوک جھونک ہوئی۔ڈی جی لیگل طاہرپرویزنے شیخ رشیدپرطنز کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ خوش ہیں؟شیخ رشید نے چیف جسٹس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھ لیں چیف صاحب آپ کے سامنے مجھ پرطنزکررہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ طاہرپرویزکووزیر کی عزت کرنی چاہیے۔آپ میرے عزیزکے دوست ہیں مگرمیں قانون کے مطابق فیصلے کرتاہوں۔عدالت نے کہا کہ شیخ رشید ریلوے میںپنشن،کوارٹراورنوکریوں کی شکایات ہمدردی کی بنیادپردیکھیں۔سپریم کورٹ نے بچوں کے جگر کے ٹرانسپلانٹ کی سہولت نہ ہونے پرمجوزہ پلان طلب کر لیا۔عدالت نے پی کے ایل آئی میں بالغ افراد کے پہلے ٹرانسپلانٹ کی تاریخ طلب کر لی۔عدالت نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور متعلقہ افسروں کوآئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کر ی۔ چیف جسٹس نے کہااگر وزیراعلی پنجاب کو بلانا پڑا تو بلائیں گے۔ ڈاکٹر جواد ساجد ممبر پی کے ایل آئی نے کہا کہ بالغ مریضوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ کرنے کو بالکل تیار ہیں۔بچوں کے ٹرانسپلانٹ کے لئے ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں مگرتجربہ کار ٹیم موجود نہیں۔ چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ نے بتایا کہ جگر کا ٹرانسپلانٹ نہ ہونے سے اٹھائیس بچے چلڈرن ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسپلانٹ سینٹر کے قیام میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ بچے بچانے کی بجائے اورنج لائن منصوبے پر توجہ دی گئی۔ وہ منصوبہ بھی اب عدالت مکمل کرا رہی ہے۔ میرے لئے قابل شرم بات ہے کہ ستر برس گزرنے کے باوجود بچوں کے ٹرانسپلانٹ کا ملک میں ایک بھی ہسپتال نہیں بن سکا۔حکومت نے بچوں کو سہولیات فراہم نہیں کرنی تو پھرکیا کرنا ہے؟ پی کے ایل آئی میں اربوں روپے لگا دئیے گئے مگر ایک بھی آپریشن نہیں ہو سکا۔معصوم بچے اپنے بڑوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اپنی بیماری کے باوجود بڑوں کی طرح خود چل کے نہیں جاسکتے۔ کیا ہم ان کی تکلیف کے ازالے کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔اگر کوئی منصوبہ نہیں تو آئندہ سماعت پر وزیراعلیٰ پنجاب کو بلا لیتے ہیں۔وزیراعلیٰ شریف آدمی ہے کام کرنا چاہتے ہیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے غیرمعیاری چارٹرڈ یونیورسٹیوں کے حوالے سے کابینہ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔عدالتی معاون میاں ظفراقبال کلانوری اور ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار عباسی نے بتایا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے ہائی پروفائل کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ چارٹرڈ یونیورسٹیاں کاروبار بن چکا ہے۔تعلیم کے نام پر ڈگریاں بیچی جا رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ تین وزیروں کو عدالت میں طلب کیا مگرکسی نے آنا گوارا نہیں کیا۔معاملہ حساس تھا اس لئے صحت، قانون اور ہائرایجوکیشن کے وزیروں کو بلایا۔ سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے سٹی سکینڈل کیس کے متاثرین کے ازالے کے لئے وزیر ہا¶سنگ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تجاویز طلب کر لیں۔ایل ڈی اے نے بتایا کہ ڈویلپرز نے درجہ سوم کی زمین حاصل کی۔ اکتالیس ہزار کی بجائے بیس ہزار کینال اراضی حاصل کی۔ سات ہزار کی بجائے گیارہ ہزار فائلیں فروخت کر دیں۔ڈویلپرزنے عدالت کوبتایا کہ مزید بیس ہزار کینال اراضی حاصل کر کے دو سے تین سالوں میں ایل ڈی کے سپرد کرنے کو تیار ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں اگر ایسا ہوا تو معاملہ کبھی حل ہی نہیں ہو گا۔جس نے بھی یہ منصوبہ سوچا اس نے فائلیں پکڑے متاثرین سے دھوکہ کیا۔اس معاملے میں سب ملے ہوئے تھے۔اعتماد بڑی چیز ہوتا ہے ایل ڈی اے نے لوگوں کا وہ اعتماد کھویا۔اب لوگ اپنی زمینیں اسی لئے ایل ڈی اے کو بھی بیچنے کو تیار نہیں۔جب تک ڈویلپرز کو اس معاملے سے نہیں نکالا جائے گا یہ مسلہ حل نہیں ہونا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایل ڈی اے ڈویلپرز کے معاہدے منسوخ کرے۔ایل ڈی اے ڈویلپرز سے پیسے وصول کرے اور ان کے خلاف مقدمے درج کرائے۔ مزید زمین حاصل کرنے کی بجائے 20 ہزار کنال اراضی کو ایل ڈی اے ڈویلپ کرے جن کو الاٹمنٹ لیٹر مل گئے پلاٹ ان کو دئیے جائیں دیگر متاثرین کو رقم واپس کر کے معاوضہ ادا کیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پیراگون کا مالک ندیم ضیاءکدھر ہے۔ نیب کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ندیم ضیاءمفرور ہے۔ اسکے خلاف کارروائی جاری ہے۔ 15 دنوں میں ریڈ وارنٹ جاری ہو جائیں گے۔ ندیم ضیاءکا جلد پتہ چلا لیں گے کہ وہ کدھر ہے۔ سپریم کورٹ نے 65 لاکھ روپے اضافی تنخواہ واپس کرنے پر سابق اوورسیز پاکستانیز کمشنر پنجاب افضال بھٹی کے خلاف ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری اراضی پر پیکجز مال کی تعمیر کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا۔ سیکرٹری کالونیز عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ 2015 ءکو ختم ہونے والی لیز پر پلازہ کی تعمیر کی اجازت کیوں دی۔ سیکرٹری کالونی نے عدالت میں جواب دیا کہ وہ تو مجھے نہیں پتہ۔چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پھر یہاں کیا لینے آئے ہو۔عدالت نے آئندہ سماعت پر لیز ختم ہونے کے باوجود پلازہ کی تعمیر پر سیکرٹری کالونی سے تحریری جواب طلب کرلیا۔علاوہ ازیں سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے چوتھے کانووکیشن سے خطاب میں چیف جسٹس، جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے کام کرنے کو اصل خدمت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اداروں کی غلطیوں کا سدباب کرنا عدلیہ کی قانونی ذمہ داری ہے۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لینا عدالت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ میرا امتحان شروع ہوچکا ہے جس کا نتیجہ ریٹائرمنٹ پر نکلے گا، صحت کے شعبے میں خیبر پی کے میں جو کرنا چاہ رہا تھا، نہیں کرسکا لیکن پنجاب اور سندھ میں صحت کے شعبوں میں تبدیلیاں آئی ہیں، ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں، آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ، 21ہزار روپے کا مقروض ہے، کیا پانی کی کمیابی کے معاملے پر بات کرنا غلط ہے؟ کیا صاف پانی کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟۔ چیف جسٹس نے کانووکیشن میں 220 گریجوایٹس کو ڈگریوں سے نوازا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج دوسرا موقع ہے کہ میں ڈاکٹرز سے خطاب کررہا ہوں، میں نے بطورچیف جسٹس کچھ وعدے کیے، اپنے وعدوں پرکتنا عمل کیا وہ قوم پرچھوڑرہا ہوں۔ عوامی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ میرا مقصد ہمیشہ خلوص پرمبنی رہا۔ زندگی بامقصد ہونی چاہیے، کیڑے مکوڑے کی طرح بے مقصد نہیں۔ قوم کی خدمت کیلئے تین گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا۔ میں نے اپنی پوری زندگی انصاف کے حصول کے لیے کام کیا ہے، پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمہ داری نبھانا ہی اصل خدمت ہے۔ نجی میڈیکل کالجز ڈاکٹرز نہیں عطائی پیدا کر رہے ہیں۔ نجی ہسپتال بزنس سنٹر بن چکے ہیں۔ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق ہے اور طب کا شعبہ سب سے زیادہ ذمہ دار ہے لہٰذا ڈاکٹر حضرات کو چاہیے کہ اپنے حلف کی صحیح پاسداری کریں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پر غلطیاں ہو رہی تھیں۔ چیف جسٹس نے ماضی کی یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ میں 8 برس کی عمر میں اپنی والدہ کو تانگے پر بٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لےکر جاتا تھا اور کئی کئی گھنٹے تک ڈاکٹروں کے پاس جا کر بیٹھا رہتا تھا۔ والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو انسانیت کی خدمت کی نصیحت کی اور دعا کی اے اللہ! جو تکلیفیں تھیں تونے مجھے دے دیں، میری اولاد کو محفوظ رکھنا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص کسی عذاب سے گزرتا ہے، اسے دوسرے کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے، میں نے بھی والدہ کی نصیحت کو پلے سے باندھ کر اپنی زندگی کا مشن شروع کیا۔ نجی کالجزو ہسپتال بزنس ہا¶سزبن چکے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ وہ تمام نجی ہسپتالوں کی نہیں، مخصوص اداروں کی بات کر رہے ہیں۔ مجھے ملک کے ہر کالج، ہر ہسپتال کے ساتھ محبت ہے، میری محبت یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے نجی میڈیکل کالجوں کی لاکھوں روپے فیس میں سے 726 ملین روپے بچوں کو واپس دلوائے۔ چیف جسٹس نے تعلیم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی وخوشحالی کے لیے تعلیم بنیادی درجہ رکھتی ہے اور میری ہمیشہ سے کوشش رہی کہ تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کروں۔ میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے وسائل کو تعلیم پر لگانا چاہیے۔ ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں۔پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ، 21 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ کیا صاف پانی کے مسئلے پر ازخود نوٹس لینا میرے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟ آخر میں چیف جسٹس نے کہا کہ پانی سے لےکر ادویات کی حد تک ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ بہتری لائیں۔ پی ایم ڈی سی کا قانون ابھی پارلیمنٹ میں پیش ہونا ہے جو صحت کے شعبے کے لیے غنیمت ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہوگی ایسا نظام لائیں کہ جتنے پرائیویٹ کالجز ہیں وہ خود اپنے طلبا کو ہا¶س جاب کرائیں اور اگر کسی پرائیویٹ کالج کے طالبعلم کو سرکاری ادارے میں ہا¶س جاب کرنا پڑا تو پرائیوٹ کالج اسکا خرچا اٹھائے۔ چیف جسٹس نے کہا بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال کی حالت ابتر تھی۔انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں الٹرا سا¶نڈسمیت کئی آلات نہیں تھے، آسامیاں خالی تھیں، میری محبت کسی خاص ہسپتال یاعلاقے سے نہیں اس شعبے سے ہے۔ جوپانی پینے کے قابل نہیں اس کوبھی نچوڑا جا رہا ہے۔ منرل واٹرایشوپرنوٹس لیا، کیا میں نے خود بوتلیں بنانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صاف پانی کے وسائل نہیں، ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 7 بلین گیلن پانی واٹرکمپنیاں مفت استعمال کررہی تھیں۔ پہلے سماعت میں اس پر ٹیکس لگانے کا کہا، مسئلوں پرکیا سوموٹو لینا دائرہ اختیارسے تجاوزکرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی انصاف کے حصول کے لیے کام کیا ہے۔ میری زندگی کا مقصد ہمیشہ اپنے پیشے سے مخلص رہنا ہے۔پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمہ داری نبھانا ہی اصل خدمت ہے۔ کانووکیشن کے موقع پر پروفیسر سعید کھوکھر کی جانب سے ڈیم فنڈ کیلئے چیف جسٹس کو ایک لاکھ روپے کا چیک دیا گیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئین کے تحت زندگی اور جائیداد بنیادی حق تسلیم شدہ ہے۔ ڈاکٹر اللہ کے چنے ہوئے لوگ ہیں، آپ کو عزت، رزق بھی اسی شعبے سے ملی،اگلے جہاں میں سرخروئی بھی اسی سے ملے گی مگر شرط ہے کہ اپنے پیشے سے انصاف کریں۔ ملک ہم سب کی ماں ہے۔ یہ وطن قربانیوں سے حاصل کیاگیا۔وطن سے عشق کریں سب کچھ وطن پرنچھاور کریں۔چیف جسٹس نے امید ظاہر کی کہ آنے والے سالوں میں ملک ترقی کی طرف گامزن ہو گا۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن