• news
  • image

سندھ میں قیادت کا بحران!

گزشتہ روز، سندھ اسمبلی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو تبدیل اور تحریک عدم اعتماد لانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس کے بعد پارلیمانی لیڈر جی ڈی اے کے حسنین مرزا نے کہا کہ بہتر ہے کہ وزیر اعلیٰ خود مستعفی ہو جائیں۔ عہدے پر ہوتے ہوئے وہ تفتیش پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ وہ بقول اُن کے منی لانڈرنگ کے مرکزی ملزم ہیں۔ پی پی نے اگر مراد علی شاہ کو خود نہ ہٹایا تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ دریں اثنا وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا ہے کہ حالات کے پیش نظر سندھ میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری بھی کراچی پہنچ رہے ہیں جہاں وہ بدھ تک ٹھہرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی سندھ کی سیاسی صورتحال کوتشویشناک قرار دیتے ہوئے صوبے کا خود دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی حکومت کی طرف سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سمیت 172 اہم شخصیات کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے بعد، سندھ کی سیاسی صورتحال غیر معمولی ہو گئی ہے۔ بیانات کی شعلہ باری جاری ہے۔ جو معاملات عدالتوں سے طے ہونے ہیں اُنہیں سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ابھی جمہوری روایات جڑ پکڑ رہی ہیں۔ یہاں بیٹھ کر یہ توقع رکھنا کہ معمولی الزام پر سویڈن ، ناروے یا برطانیہ کے وزیر اعظم ، وزیر یا کسی اعلیٰ عہدیدار کی طرح ہمارے ہاں ایسا بھی ہو گا‘ عبث ہے۔ یہ درست ہے کہ تحریک عدم اعتماد جمہوری طریقہ کار ہے لیکن ملکی حالات ا ور قومی مصالح کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ پہلے تو اگر اس حوالے سے چندے توقف کر لیا جائے تو اس سے شاید اُتنا بگاڑ نہ آئے جتنا جلد بازی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سید مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل میں ہے۔ پہلے تودیکھنا چاہئے کہ وہ خود کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں۔ علاوہ ازیں اس بحران سے نکلنے کی ا یک صورت یہ بھی ہے کہ پی پی پی ہی کو قیادت کی تبدیلی کا موقع دیا جائے۔ ہوشمندی یہ ہے کہ اختلافات کو ملک و قوم کے مفادات کے تابع رکھا جائے، ذاتی دشمنیوں میں نہ تبدیل ہونے دیا جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن