پیر ‘ 23؍ ربیع الثانی 1440 ھ ‘ 31 ؍ دسمبر 2018ء
نواز شریف جیل میں میوزک، زرداری ڈانس کی تربیت دیں گے۔ فیاض چوہان
پہلے بھٹو مرحوم کے دور میں انہوں نے کچھ سیاستدانوں کے مزاحیہ نام رکھے تھے مگراسکے باوجود باقی سیاستدانوں نے اس فعل بد یا کھیل بد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ نواز شریف دور میں شیخ رشید نے ہزل گوئی کی تاریخ نئے سرے سے مرتب کرنا شروع کر دی ا ور جعفر زٹلی کا جانشین بننے کی کامیاب کوشش کی۔ ابھی تک وہ اس درجہ عالیہ پر یک و تنہا فائز ہیں۔انکی ’’سخن طرازی‘‘ آن دی ریکارڈ ہو یا آف دی ریکارڈ اس کا جواب کوئی نہیں۔ مگر اب آہستہ آہستہ اس میدان میں ا ور بھی شہسوار آہستہ آہستہ قدم جمانے لگے ہیں۔ اس میں کسی پارٹی کی کوئی قید نہیں۔ بڑے بڑے نامی سخن طراز نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے گویا لکھنئو کی اندر سبھا رچی ہوئی ہے ا ور تمام ہزل گو اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ زیادہ دھوم اس وقت پی ٹی آئی کے فیاض الحسن چوہان کی ہے۔ لگتا ہے مشاعرہ وہی لوٹ لیں گے۔ انکے گزشتہ روز کے حاصل مطالعہ بیان ’’جیل میں میاں صاحب میوزک اور زرداری جی ڈانس سکھائیں گے۔‘‘ پرتو خود میاں صاحب اور زرداری جی مچل اُٹھے ہونگے۔ انکے لبوں پر مسکراہٹ ہی نہیں حلق سے قہقہے بھی بلند ہوئے ہوں گے۔ جہاں تک لوگ جانتے ہیں میاں صاحب کو میوزک سے خاص دلچسپی نہیں بس اچھا گانا سن لیتے ہیں۔ زرداری جی کو صرف پیپلز پارٹی کے ترانوں پر ہی تھرکتے وہ بھی کبھی کبھار دیکھا گیا۔ ایسا نادر خیال کسی زرخیز دماغ کو ہی سمجھتا ہے۔ اس وقت فیاض الحسن کی طبع رواں ہے۔ الفاظ خود بخود لگتا ہے انکی زبان سے پھسل رہے ہیں۔ ورنہ کون ایسی بات کرتا ہے جس کے جواب میں بے بھائو کی سننے کو ملے۔ مسلم لیگ کے پاس رانا ثنا اللہ عابد شیر علی اور پیپلز پارٹی کے پاس سعید غنی اور چانڈیو صاحب موجود ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کی طرف سے کیسا دو غزلہ جواب آتا ہے۔
٭٭٭٭
زینب کے قاتل کے گھر پر ایس ایچ او نے قبضہ کر لیا
اب گناہگار کو سزا ملنے کی حد تک تو سب اتفاق کر سکتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک گنہگار کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ مگر یہ قصور کا تھانیدار ایک دم فرعونیت پر کیسے اُتر آیا۔ اب کہاں کیا قانون، کہاں کیا، انصاف۔ قانون نافذ کرنے والے ہی جب غاصب اور قانون شکن بن جائیں تو پھر صرف غضب الٰہی کا ہی انتظار ہو سکتا ہے۔ کیا اس تھانیدار کو اگر اس کا وجود ہے تو‘ علم نہیں کہ آج کل سپریم کورٹ اس جیسے قبضہ گروپوں کے بڑے بڑے اوتاروں کو زمین کی دھول چٹا رہی ہے تو یہ تھانیدار کس کھیت کی مولی ثابت ہو گا۔ عجب دھونس دھاندلی ہے۔ ملزم کے گھر والوں کا کیا قصور۔ مجرم سزا پا گیا۔ اب یہ تھانیدار اونٹ کی طرح خیمہ میں گھس بیٹھا ہے۔ اور نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ا ور آئی جی پنجاب کم ازکم گھروالوںکو ان کاگھر ہی واپس کرا دیں جو ان سے بے سبب چھینا گیا ہے۔ اب تک تو یہ تھانیدار گھر سے سارا سامان تک اٹھا لے گیا ہو گا۔ چلو پھر بھی غنیمت ہے۔ خالی گھر ہی گھر والوں کو واپس مل جائے۔ لگتا ہے یہ تھانیدار قبضہ مافیا سے تعلق رکھتا ہے۔ ذرا اسکی تنخواہ اور طرز زندگی کا فرق معلوم کریں اثاثے چیک کریں تو سالے اور سالیوں کے بھی اکائونٹس اور جائیدادیں سامنے آ سکتی ہیں۔ کیونکہ اکثر ایسے لوگ اہلخانہ رشتہ داروں اور ملازمین تک کے نام پر اثاثے چھپاتے ہیں۔ ا یسے درجنوں کیس اس وقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اورعوام ان کہانیوںکے مزے لے رہے ہیں۔
پاکستان پوسٹ موبائل ایپ کا اجرا کر دیا گیا
کیا وقت تھا جب خط کو آدھی ملاقات کا درجہ حاصل تھا۔ اب تو موبائل کے دور میں فوری ملاقات ہو جاتی ہے۔ وہ انتظار کی لذت کہاں باقی رہی جو صدیوں تک افسانوں، کہانیوں، شاعری اور محاوروں تک میں انتظار کی شدت اور تکلیف کو بیان کرتی تھی۔ وہ وقت تھا جب ڈاکیے کا بھی شدت سے انتظار رہتا تھا ا ور اسے دیکھ کر ہر ایک کے دل میں خواہش مچلتی تھی کہ ہمارے نام کا بھی کوئی سندیسہ لایا ہو۔ گھنٹوں لوگ اپنے پیاروں کے خطوط پڑھا کرتے تھے۔ آنکھوں اور سینے سے لگاتے تھے۔ تکیوںکے تلے چھپاتے تھے۔ کئی بے چارے تو …؎
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھیں ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
کی حسرت لئے رہ جاتے ہیں۔ جب سے موبائل کی بیماری پھیلی یہ سب لذتیں ختم ہو گئیں اب براہ راست ٹاکرا ہوتا ہے۔ پاکستان پوسٹ یعنی ڈاکخانہ تو کب کا صرف پارسل تک رہ گیا تھا۔ ا س میں بھی نجی کمپنیوں نے برق رفتار پارسل نظام لا کر ڈاکخانے والوں کی آمدنی ہتھیا لی۔ اب جب سے نئے محکمہ مواصلات ہمارے نئے نوجوان وزیر مراد سعید کے ہاتھ آیا ہے۔ امید بندھی ہے وہ ایک بار پھر اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال دینگے کیونکہ وہ پرعزم بھی ہیں اور پرجوش بھی۔ اب انہوں نے موبائل ایپ نیا ڈیجیٹل پاکستان پوسٹ کا افتتاح کر کے اس محکمہ میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی بدولت صارفین کو تمام معلومات موبائل فون پر ہمہ وقت دستیاب ہوں گی۔ ان اقدامات کی بدولت یہ محکمہ ایک بار پھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے ۔
٭٭٭٭
کشمور: میر سلیم جان کی طرف سے آصف زرداری کو 2 اونٹنیوں کا تحفہ
سابق صدر پاکستان جو آج کل سندھ کے ہنگامی دورے پر ہیں۔ اندرون خانہ رازداروں کے مطابق وہ پارٹی رہنمائوں سے اپنی گرفتاری کی صورت میں بلاول سے وفاداری کا حلف لے رہے ہیں اور انکی پکڑ دھکڑ کی صورت میں آصفہ یا بختاور میں سے جو بھی پارٹی کی کمان سنبھالے ان سے وفاداری کے وعدے لے رہے ہیں تاکہ یہ بکھرے پتوں کی طرح اِدھر اُدھر نہ ہو جائیں۔یہ ہنگامی دورے کسی بھی سبب ہوں۔ ان کا فائدہ بہرصورت زرداری صاحب کو ہی پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں انہیں ایک شہر میں جلسے کے بعد 4 عدد اونٹوں کا تحفہ ملا۔ اس کے بعد ایک عدد گھوڑا پیش کیا گیا۔ اب کشمورمیں اعلیٰ نسل کی سوئی سے منگوائی 2 عدد اونٹنیاں تحفہ میں ملیں۔ اس طرح تو زرداری ہائوسز میں جہاں کے گھوڑوں کے اصطبل پہلے ہی مشہور ہیں۔ اب اونٹوں کا فارم بھی بآسانی کھل جائیگا۔ میاں نواز شریف کے دور میں وزیراعظم ہائوس میں بھینسوں کا باڑہ تھا۔ وہ ان کا دودھ استعمال کرتے تھے۔ زرداری جی کیا اونٹنیوں کا دودھ پیتے ہیں کہ ہرجگہ سے انہیں تحفے میں یہی مل رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی معزولی کے بعد اعلیٰ نسل کی یہ بھینسیں نیلام ہوئیں کیونکہ خان صاحب کو ان بھینسوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اب زرداری صاحب کی غیر حاضری میں ان اونٹنیوں کی دیکھ بھال کون کریگا۔ بھینسیں معصوم اور بھولی بھالی ہوتی ہیں۔ سر جھکا کر جی لیتی ہیں۔ مگر اونٹنیاں نہایت ترش مزاج ہوتی ہیں وہ تو ہنگامہ برپا کردیں گی۔ یہ تو بعد کی باتیں ہیں فی الحال زرداری صاحب کو اپنے ذاتی فارم میں نئے اونٹ اور گھوڑے کی آمد مبارک ہو۔
٭٭٭٭