• news
  • image

بین الاقوامی مرکز مطالعہ برائے روا داری

’’ تو یوں کہیے نا کہ آپ ماڈرن اسلام والے ہیں‘‘۔
یہ جملہ سنے کم از کم چار دہائیاں تو بیت چکی ہوں گی، ہوا یوں کہ میرے ممیرے بھائی ، اس سے بڑھ کر دوست بلکہ ہم نفس بشارت محمود اعوان ملنے کو آئے تو انھوں نے اپنے ایک ایسے دوست سے ملنے کی خواہش کی جو ایک خاص دینی  گروہ کے متاثرین میں سے تھے۔سرگودھا میں خوشاب روڈ کے ایک بہت ہی پرانے گھر میں ان سے ملاقات ہوئی۔ گزشتہ صدی کے ابتدائی برسوں میں تعمیر ہونے والے اس گھر کی آن بان ہی مختلف تھی۔ہم متانت اور بزرگی کے بوجھ تلے جھکی ہوئی ڈیوڑھی سے گزرتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے جسے ان دنوں بیٹھک کہا جاتا تھا تو لگا کہ جیسے کسی نئی دنیا میں آگئے ہوں۔گھر کے باسیوں نے اس نفاست سے تراش خراش کرکے اس حصے کو از نو تعمیر کیا تھا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم کم و بیش ایک صدی کی مار کھائی ہوئی عمارت میں بیٹھے ہیں۔اردو بازار کے نمک پاروں اور امین کے ڈھوڈے کے ساتھ چائے کی چند چسکیوں نے ملنے والوں کے درمیان بے تکلفی کی فضا پیدا کردی جو تعارف سے سے ہوتے ہوئے حالات حاضرہ تک جاپہنچی۔ یہ عین وہی دور تھا جب ہمارے مغرب یعنی افغانستان میں معرکہ ’’خیر وشر‘‘ یعنی جہاد افغانستان برپا تھا اورجنرل محمد ضیاالحق ذوالفقار علی بھٹو کو ’’کیفر کردار‘‘تک پہنچا دینے کے بعد اسلام کا پرچم بلند کررہے تھے۔
ہماری قومی تاریخ کا یہ دور بڑا ہی اہم ہے کیوں کہ چند ہی برس پہلے قوم کم و بیش تین دہائیوں کی آبلہ پائی کے بعد ایک ایسی دستاویز پر متفق ہوئی تھی جسے ہم73ئ￿ کے آئین کا نام دیتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے کہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں ہمارے تمام دکھوں کا علاج موجود ہے اور اس میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ کثیر النسل اور کثیر العقیدہ پاکستانی قوم اپنی اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لاکرتمام تر اختلافات اور مادی و نظریاتی تضادات پر قابو پاتے ہوئے اس کتاب دستور پر باہم اتفاق پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی، اللہ کا شکر ہے کہ ہر آنے والا دن ہمارے اس اتحاد و اتفاق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ زمانہ ہماری تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ زمانہ اس اعتبار سے بھی یاد گار ہے کہ اسی عہد میں ہمارے قومی مزاج میں کچھ ایسے عناصر کا تال میل ہوا جس نے آنے والے دنوں کا منظر ہی تبدیل کردیا۔اس دوست کے ساتھ جب آئین، قانون،جدید عہد اور اس کے تقاضوں نیز اقبال علیہ رحمۃ کا ذکر ہوا تو تن تنا کر انھوں نے وہ جملہ ادا کیا جس سے اس تحریر کی ابتدا ہوئی ہے۔
انسان فطرتاً جدت پسند ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ماضی کی یادوں سے لطف اندوز بھی ہوتے رہنا چاہتا ہے۔ یہ دو عناصر اگر باہم مل جل کر رہنا سیکھ لیں تو آگے نکلنے کے راستے نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ اگر اپنی اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور ہوکر ماضی، حال اور مستقبل کے خانوں میں بٹ کر رہ جائیں تو وہ پھر تماشا جنم لیتا ہے جس کا ایک معمولی مظاہرہ اس بھولی بسری ملاقات میں ہوا جس میںعلامہ اقبال کے ذکر اور بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اجتہاد اور اس بھاری پتھر کو اٹھانے کے لیے شاعر مشرق کی خواہش کے مطابق پارلیمنٹ کا ذکر ہوا تو وہ صاحب نہ صرف بھڑک اٹھے بلکہ انھوں نے ہمیں ’’جدید‘‘ اسلام کا مقلد قرار دے کر کم از کم اپنے دائرے سے تو باہر نکال ہی دیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی کی یادوں اور بزرگوں کے طور طریقوں کو سینے سے لگائے رکھنا قدیم سے ہے لیکن ہماری 70 اور 80کی وہ دہائی جس میں قوم نے آگے بڑھنے کے بہت سے راستے تلاش کیے تھے ، ایک اور اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں اس ذہن کو غیر معمولی غلبہ حاصل ہوا جو ذرا سے اختلاف پر بھی ہر کس و ناکس کو اپنے چھوٹے یا بڑے دائرے بلکہ حلقہ احباب تک سے نکال دینے پر تلا بیٹھا تھا، بہ الفاظ دیگر ہمارے اجتماعی روّیوں میں جگہ پانے والی یہی انتہا پسندی تھی جس نے خواہ افغانستان میں لڑی جانے والی ایک طرح کی عالمی جنگ اور بعض دیگر عوامل کے زیر سایہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کے تار و پود بکھیر کررکھ دیے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران میں وطن عزیز کے مختلف حصوں میں بھڑکنے والی یہ وہی آگ ہے جس نے ہماری 70 ہزار جانیں لیں،معیشت کو تباہ و برباد کردیا اور ہمارے مزاجوں میں اس طرح تندی بھر دی کہ بھائی بھائی گلا کاٹنے پر اتر آیا۔یہی چیلنج تھا جس کے پیش نظر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آبادمیں خطاب کرتے ہوئے سابق صدر ممنون حسین نے تجویز پیش کی تھی کہ سیاسی علائق سے بری علمائے کرام کا ایک ایسا پینل تشکیل دیاجائے جو قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں دین کے نام پر خون ریزی میں مصروف عناصر کو جاکر سمجھائیں کہ جو کچھ تم کررہے ہو، اس کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔یہی تجویز انھوں نے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی پیش کی تو آگے بڑھنے کی ایک راہ سجھائی دے گئی۔اس جامعہ نے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر ضیاالحق کو یہ ذمہ داری سونپی جو ڈیڑھ دو برس تک مسلسل محنت کے بعد پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ ہزار علمائے کرام کو ایک موقف پر متفق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہی کوششیں تھیں جنکے نتیجے میں پیغام پاکستان کے نام سے ایک تاریخی دستاویز وجود میں آئی جسے اب قومی بیانئے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔آئین پاکستان کی طرح یہ بھی ایک ایسی دستاویز ہے جو نظریاتی افراط و تفریط کے بھڑکتے ہوئے الائو پر امن وآشتی کا ٹھندا پانی ڈال سکتی ہے۔ قوم کو ایسی دستاویز پر متفق کرنے پر جامعہ کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی، صدر جامعہ پروفیسر ڈاکٹر احمد یوسف احمد الدریویش اور پروفیسر ڈاکٹر ضیاالحق کے علاوہ پس پردہ محنت کرنے والے بعض درد مند احباب یقینا مبارک باد کے مستحق ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اعتدال اور راستی کے فروغ کا یہ سفر مزید آگے بڑھا ہے اور بات پاکستان کی حدود سے نکل کر بین الاقوامی حیثیت اختیار کررہی ہے۔

اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر دریویش اوراسی جامعہ ہی کے ایک اور ادارے اقبال انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و مکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین حال ہی میں رباط پہنچے جہاں انھوں نے اسلامی تعاون تنظیم کے ذیلی ادارے اسلامک ایجو کیشنل ، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (ISESCO)کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی سیمنار میں پاکستان کی نمائندگی کی۔اس سیمینا ر میں پیغام پاکستان بھی زیر بحث رہا اور یہ فکر بھی کی گئی کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ پیغام پاکستان ہی کی طرز پر امن و محبت اور اخوت کا پیغام نہ صرف پوری اسلامی دنیا بلکہ دنیا بھر میں عام کردیا جائے۔ فیصلہ ہوا کہ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ایک بین الاقوامی مرکز تحقیق و مطالعہ قائم کیاجائے جو ہم عصر دنیا ، خاص طور پر اسلامی دنیا کے اس نوعیت کے مسائل کا جائزہ لے کر کوئی قابل عمل لائحہ عمل تجویزکرے۔ طویل مشاورت اور غور و خوض کے نتیجے میں یہ اعزاز بھی پاکستان کو حاصل ہوا کہ اس مرکز کا صدر مقام اسلام آباد میں قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آئسیسکو کے ڈائرکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز بن عثمان التویجری اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر احمد یوسف احمد الدیویش کے درمیا ن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے تحت یہ تحقیقی مرکز بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں قائم ہوگا۔ مسلم دنیا کو درپیش سنگین مسائل کے تناظر میں بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ان معاملات میں پاکستان اپنے تجربات سے نہ صرف اسلامی برادری بلکہ دہشت گردی کے زخموں سے نڈھال پوری دنیا کو مستفید کرسکے گا۔ ڈاکٹر دریویش اگرچہ سعودی عرب کے چشم و چراغ ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں ہیں اور اسلامی یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی یہ خدمات پاک سعودی تعلقات میں مزید گہرائی اور گرم جوشی پیدا کررہی ہیں، اس مرکز کے قیام کے سلسلے میں ا ن کی مساعی تو یقینا ایسی ہیں جنھیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن