• news

چھوٹے شہروں میں بھی ٹرانسپورٹ کے مسائل شدت اختیار کرگئے

لاہور (شہزادہ خالد) لاہور، کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں میں بھی ٹرانسپورٹ کے مسائل شدت اختیار کر گئے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مسافروں کے لئے ٹرانسپورٹ میں کوئی بہتری نہیں لائی جا سکی۔میٹرو بس سروس سے مسافروں کو کچھ آرام ملا لیکن اس سے حکومتی خزانے پر سبسڈی کی مد میں انتہائی بوجھ پڑا اور میٹرو اورنج ٹرین کے چلنے سے پہلے ہی پونے سات کروڑ روپے یومیہ جرمانے کی مد میں خزانے کو بڑا دھچکا لگ گیا۔ پنجاب میں پی آر ٹی سی( پنجاب روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی) 80 کی دہائی میں انتہائی کامیاب تھی اس کے بعد سے ٹرانسپورٹ میں زوال آنا شروع ہو گیا۔سڑکوں اور گاڑیوں پر بھاری ٹیکس لگانے کے باوجود مسافروں کی حالت ابتر ہورہی ہے۔ رواں مالی سال کے دوران ٹول ٹیکس کی مد میں 25 ارب روپے سے زائدوصول کئے گئے جو کہ گزشتہ 5 سال کے دوران ٹول ریونیو کی مد میں 9ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہے۔ملک بھر میں بڑی قومی شاہراہوں پر 119 ٹول پلازے قائم ہیں،ذرائع کے مطابق مالی سال 2012-13کے دوران این ایچ اے نے ٹول ریونیو کی مد میں 16ارب روپے ریونیو حاصل کیا تھا۔لاہور میںمیٹرو بس سروس نے پہلے چار برسوں میں20 کروڑ افراد کو سفر کرایا۔ میٹرو کے مخصوص روٹ کی وجہ سے باقی لاہور متاثر ہورہا ہے۔ میٹرو بسوں سے اوور لوڈنگ ختم کرنے کے لئے لاہور کے تمام روٹس پر 200 سپیڈوبسیں14 روٹس پر چلا ئی گئیں لیکن ان میں کارڈ سسٹم کی وجہ سے یہ بسیں خالی دوڑ رہی ہیںلیکن اس کے باوجود معاہدوں کے مطابق کمپنی کو پوری رقم ادا کی جا رہی ہے اس طرح اس سروس سے قومی خزانہ کے اربوں روپے ضائع ہورہے ہیں۔ دوسری طرف محکمہ ٹرانسپورٹ کے فٹنس سیکشن کو ٹھیکہ پر دینے سے یومیہ دو لاکھ روپے نقصان پہنچ رہاہے۔ موٹر وہیکل ایگزامینر سیکشن جو ٹرانسپورٹ کے محکمہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے سویڈن کی کمپنی’’ اوپس‘‘ کو ٹھیکہ پر دے دیا گیا ۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ سے ٹوکن ٹیکس،ٹکٹوں وغیرہ کی مد میں صرف لاہور میں ماہانہ 35 سے 40 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع ہوتے تھے۔شیخوپورہ کا دفتر فٹنس سرٹیفیکیٹ کی مد میں ماہانہ 10سے 15 لاکھ روپے کما کر دے رہا تھا۔ملکی عملے کو ماہانہ ریونیو کا ٹارگٹ دیا جاتا تھا جبکہ غیر ملکی کمپنی کو کوئی ٹارگٹ نہیں دیا گیا ۔ اب غیر ملکی کمپنی 50 سال کے لئے وہیکل انسپکشن اینڈ سرٹیفکیشن سسٹم کے تحت ٹھیکہ دیا گیا۔ معاہدے کے تحت سویڈش کمپنی اوپس سے جو ریونیو اکٹھا ہو گا اس سے 5 یا 10 فیصد پنجاب حکومت وصول کرے گی جو پہلے اکٹھے کئے جانے والی رقم کا ایک چوتھائی بھی نہیں ۔اس حوالے سے ٹرانسپورٹ حکام کا کہنا ہے کہ وہیکل انسپکشن اینڈ سرٹیفکیشن سسٹم کے تحت عالمی معیار کے مطا بق گا ڑیوں کی مستقل چیکنگ کانظام رائج کیا گیا۔ وی آئی سی ایس کابنیادی مقصد روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات میں کمی لانا او ر ان پر قابوپانا ہے۔ اس فرم نے وی آئی سی ایس سٹیشن کے قیام کے لئے ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ۔ وی آئی سی ایس سٹیشن پر فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے 7عالمی پیمانے مقرر کئے گئے ہیں جن میں الائنمنٹ انسپکشن ٹیسٹ ، بریک انسپکشن ٹیسٹ، ویژیول انسپکشن ٹیسٹ ، وہیکل سسپنشن ویری فکیشن ٹیسٹ ، ہیڈ لائٹ انسپکشن ٹیسٹ، امیشن انسپکشن ٹیسٹ او روہیکل کا شور۔ انسپکشن ٹیسٹ شامل ہیں۔حکام کے مطابق بڑی گاڑی کی انسپکشن 30منٹ ، چھوٹی گاڑی 20منٹ او ررکشے کی انسپکشن کا عمل صرف 15منٹ میں مکمل ہوتا ہے اور اس سے انسپکشن کے لئے آنے والی گاڑی کو 15منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔

ای پیپر-دی نیشن