قطری گاڑیاں کیس، دفتر خارجہ اور کسٹم کلکٹر کیخلاف مقدمہ کیوں نہ بنا: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ میں قطری گاڑیوں کی برآمدگی سے متعلق کیس میں کسٹم حکام نے عدالت کو بتایا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کے نام پر پاکستان میں 280 گاڑیاں منگوائی گئیں جن میں سے 26 گاڑیاں پکڑی ہیں ، باقی گاڑیوں کا علم نہیں ، چاروں صوبوں کو اس حوالے سے لکھا گیا ہے تاہم گاڑیاں نہیں ملیں۔ عدالت نے تفصیلی ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت 6 فروری تک ملتوی کر دی جبکہ سیف الرحمن کے منیجر کو ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ بدھ کو سابق سینیٹر سیف الرحمن کے وئیر ہا¶س سے قطری گاڑیوں کی برآمدگی سے متعلق مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی۔ کسٹم حکام کی طرف سے وزارت خارجہ کا 30نومبر کو کسٹم حکام کو لکھا گیا جواب جمع کرایا گیا جس میں دفتر خارجہ نے گاڑیوں کو ری ایکسپورٹ کرنے کے لئے قطری سفارتخانے کو دو ماہ کا وقت دینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کا معاملہ ہے اس لئے قطری سفارتخانے کو اس معاملے میں وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں جو ہم سب کے لئے شرمندگی کا باعث بنے ، اس کیس میں اصل ملزم کون ہے؟ ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس نے بتایا کہ شیخ حمد بن جاسم ہیں لیکن ان کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے دفتر خارجہ اور کلیکٹر کسٹم کے خلاف کیس کیوں رجسٹر نہیں کیا ، دفتر خارجہ نے دو ماہ کا وقت دینے کی تجویزدی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس ملک کے خارجہ امور میں مداخلت کر رہے ہیں ، جب آپ اصل ملزم کو نامزد کریں اور نہ ایکشن لیں ، کسی اور کے خلاف کیوں کیس بنا رہے ہیں۔ عدالت کی طرف سے قطر ایمبیسی کے خلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق استفسار پر کسٹم حکام نے کہا کہ ہم ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات اس میں شامل ہیں ، آپ نے اس کا خیال نہیں رکھا ، جس نے یہ گاڑیاں یہاں لانے کی اجازت دی کلیلکٹر کسٹم اس کو گرفتار کرتے۔
قطری گاڑیاں