بھارتی ہتھکنڈوں سے دہشت گردوں کیخلاف توجہ ہٹ سکتی ہے‘ عالمی برادری نوٹس لے : شاہ محمود
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ، ایجنسیاں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ترکی کی میزبانی میں روایتی انداز سے بڑھ کر گرمجوشی دیکھی، دورہ ترکی دونوں ممالک کو پہلے سے زیادہ قریب لایا، مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور افغانستان پر دونوں ممالک کا نقطہ نظر ایک ہے۔2 روزہ دورہ ترکی سے واپسی پر میںکہا 4 ممالک کے دوروں کی نوعیت الگ جبکہ دورہ ترکی کی اور نوعیت تھی۔ وزیر خارجہ نے ترکی کے دورے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کا دورہ ترکی دونوں ممالک کو پہلے سے زیادہ قریب لایا۔ ترکی کے ساتھ افغانستان میں قیام امن پر مثبت بات چیت ہوئی۔ دورہ ترکی کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینا اور باہمی تعاون کو بڑھانا تھا۔ وزیرخارجہ نے کہا دورے میں ترجیحات اقتصادی اور سفارتی تھیں۔ دونوں ممالک عالمی فورم پر ہر مسئلے میں ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔عمران خان نے ترکی اور پاکستان کی عوام اورتعلقات کومزید مستحکم کیا ہے۔ انہوں نے کہا دورہ ترکی دوسرے ملکوں سے مختلف ہے اور اس دورے میں دونوں ملکوں کے عوام کو مزید قریب لانے کی کوشش کی گئی اور مدد کا انحصارکم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان خطے کی صورتحال جیسے مسئلہ کشمیر ،افغانستان اورفلسطین پربھی تبادلہ خیال ہوا اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ترک صدر رجب طیب اردگان سے جامع ملاقات ہوئی ، پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند شخصیات نے بھی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان ہائی لیول کوآپریٹو کونسل پر پلان مرتب کیا جائیگا اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اعلی سطحی کوآپریٹو کونسل پر منصوبہ بندی کرینگے۔انہوں نے بتایا 2019 کے وسط میں پاک ترک وزرائے خارجہ ملاقات میں حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ میزبان صدر کے حوالے سے وفاقی وزیر نے بتایاوہ جلد وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کریں گے، وفد میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند کاروباری افراد بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے کہاپاکستان ترکی اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس ہو گا۔ سہ طرفہ اجلاس پر وزیر اعظم نے آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ افغان صدر نے بھی اس میں شرکت پر مثبت جواب دیا ہے۔ انہوں نے ترک ہم منصب سے ملاقات میں افغانستان کی صورتحال پر اعتماد میں لیا، شام کی صورتحال پر ترک وزیرخارجہ نے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا ترکی میں سرمایہ کاروں سے بھی اچھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ترکی کے سرمایہ کار پاکستان کے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صحت اور زراعت کے شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون پر بات چیت ہوئی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا دورہ ترکی مختصر اور جامع تھا۔ ترک قیادت کے ساتھ بہت مفید ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان اور ترکی نے علاقائی امور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ ترکی کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک نے معاشی تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا۔ اگلے 5 سال کیلئے ترکی کے ساتھ روڈ میپ بنائیں گے۔ دونوں ممالک نے 5 سالہ مشترکہ ورکنگ فریم ورک کے مسودہ پر اتفاق کیا۔ سرمایہ کاری اور باہمی تجارت کے مواقع تلاش کئے جائیں گے۔ وزیراعظم ترک صدر کے درمیان 30 منٹ طے ملاقات اڑھائی گھنٹہ چلی۔صباح نیوزکے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے ہم گفت و شنید سے مسائل کا حل چاہتے ہیں بھارت غلط فہمی میں نہ رہے کسی بھی جارحانہ کاروائی کا فوری جواب دیا جائے گا۔ شاہ محمود قریشی نے پمز ہسپتال کا دورہ کر کے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن سرور خان کے والد کی عیادت بھی کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا میں ہندوستان کی قیادت کو ایک بڑا واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جو اپنی سیاسی ضروریات کے تابع ہو کر اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں جس سے اس خطے کا امن و استحکام متاثر ہو سکتا ہے ان کے ان غیر ذمہ دارانہ بیان پر پاکستان کا رویہ انتہائی میچور تھا ہم نے ردعمل نہیں دیا ہم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہمیں اپنی افواج پر اپنی عوام کی یکجہتی پر مکمل اعتماد ہے ہمیں نہ گھبراہٹ ہے اور نہ ہی ری ایکٹ کرنے کی کوئی ضرورت ہے لیکن واضح کر دوں وہ سیاسی مصلحتوں کے تحت جس قسم کے پروپیگنڈے کو ہوا دے رہے ہیں وہ غیر ذمہ دارانہ ہیں دنیا کی قیادت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے وہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کا لائن آف کنٹرول پر سرجیکل سٹرائیک کا ارادہ ہے یہ بالکل لغو اور بے معنی بات ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے پاکستان کے جارحانہ عزائم نہ تھے اور نہ ہیں ہم پرامن طریقے سے گفت و شنید سے مسائل کا حل کل بھی چاہتے تھے آج بھی چاہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بڑی تیزی سے بدل رہی ہے آج ہندوستان کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ان کی بڑی نامور شخصیات کہہ رہی ہیں کہ بھارت نے اپنی پالیسی اور رویہ سے مقبوضہ کشمیر میں جوانکی جارحانہ حکمت عملی ہے اس سے وہ کشمیریوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر کھو بیٹھے ہیں جس قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا وہاں تذکرہ ہو رہا ہے دنیا جو پہلے بے خبر تھی آج اس کا نوٹس لے رہی ہے نئی رپورٹس شائع ہو رہی ہیں اس بوکھلاہٹ اور اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنے اندرونی معاملات سے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے وہ جس قسم کا من گھڑت پراپیگنڈہ کر تے ہیں پاکستان اسکی نفی کرتا ہے پاکستان اسکی مذمت کرتا ہے پاکستان ان ارادوں کی تردید کرتا ہے جو پھیلائے جا رہے ہیں ہم پرامن لوگ ہیں لیکن پرامن رہنے کا یہ مقصد نہیں ہے ہم ان کے عزائم سمجھتے نہیںاور اس کا یہ مطلب بھی نہ لیا جائے انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی کی تو پاکستان فی الفور جواب دینے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے پاکستان اس وقت دنیا کی خواہش کے مطابق افغانستان کے امن پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ہم جانتے ہیں مغربی بارڈر اور افغانستان کی صورت میں بہتری لائی جا سکے لیکن ہندوستان جو اس قسم کے ہتھکنڈے اور پراپیگنڈہ کر رہا ہے اس سے پاکستان کی توجہ ہٹ سکتی ہے اور اگر پاکستان کی توجہ ہٹ گئی تو اس سے دہشت گردوں کے خلاف جو ہم نے پیشرفت حاصل کی ہے اور کامیابیاں ملی ہیں تو اس سے ہماری توجہ ہٹ جائیگی امن و استحکام کی ہماری کاوش کو دھچکا لگے گا دنیا کی قیادت کو ہندوستان کو باور کرانا چاہے کہ انہیں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے ہم اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ہم اس خطے میں امن چاہتے ہیں اس کی ترقی چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیںغربت اور جہالت سے یہ خطہ نجات حاصل کرے اور یہاں خوشحالی آ سکے۔
شاہ محمود
شاہ محمود