• news

آئی پی پیز معاہدے گلے کا پھندا بن گئے‘ چیف جسٹس‘ وزیر توانائی طلب ....

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز‘ایجنسیاں ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہمارے گلے کا پھندا بنے ہوئے ہیں، پتہ نہیں اس وقت کون لوگ تھے جنہوں نے معاہدے کیے۔ عدالت نے وزیر توانائی کو طلب کر لیا۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں آئی پی پیز کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی سیکرٹری پاور ڈویژن، پاور کمپنیوں کے وکیل اور آئی پی پیز کے نمائندے بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے سیکرٹری پاور سے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ہر آئی پی پی کو 159 ملین سے زائد ادائیگی کی گئی، آپ کپیسٹی پے منٹ کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عوام کے کروڑوں روپے دے دیئے گئے، چاہے وہ بجلی بنائیں یا نہ بنائیں۔ دنیا بھر میں اس طرح کے معاہدے منسوخ کیے جارہے ہیں۔ سیکرٹری پاور نے عدالت کو بتایا کہ بجلی لیں یا نہ لیں کپیسٹی پے منٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کروڑوں اربوں روپے ایسے ہی ادا کردیتے ہیں، ہم یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ حکومت کے پاس بجلی کا شارٹ فال تھا آپ نے سپلائی نہیں کی؟ اس پر پاور کمپنی کے وکیل نے کہا کہ این پی سی سی ڈیمانڈ بتاتی ہے، این پی سی سی بتاتی ہے تو آئی پی پی ایس بجلی بناتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ ڈارلنگز تھے۔ اربوں کھربوں کا سرکلر ڈیٹ بن گیا۔ لوگوں کو بجلی نہیں ملی اور آئی پی پی کو پیسے ملتے رہے۔ نہ تمام لوگوں کو بجلی ملی نہ صنعتوں کو۔ اب ہر کوئی ذمہ داری دوسرے پر ڈالے گا۔ جہاں بدعنوانی نظر آئی اس کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری پاور سے کہا کہ مجھے اس کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے ایک پریزینٹیشن بنا کر رکھی ہوگی وہ ہی وزیر اعظم کو دیتے ہوں گے۔ عدالت نے وزیر بجلی عمر ایوب کو طلب کرلیا۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے عدالت سے پیر تک وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پریزینٹیشن کے لیے پیر تک وقت چاہیے۔ جس پر عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ دریں اثناءسپریم کورٹ نے گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے بسم اللہ نیاگرا پیراگون (بی این پی) کنسورشیم کو لیز کی مد میں ساڑھے 17 ارب روپے 8سال کے اندر ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بی این پی کنسورشیم کی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی، اس دوران کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے چیئرمین اور دیگر حکام پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ گرینڈ حیات کے معاملے کا کابینہ مکمل جائزہ لے گی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گرینڈ حیات کے 2 ٹاور بن گئے ہیں، لوگوں نے یہاں اپارٹمنٹ خرید لیے ہیں۔ جب ٹاور بن رہا تھا، اس وقت سی ڈی اے نے اعتراض نہیں کیا، اب سی ڈی اے بتا دے اس نے ٹاور کا کیا کرنا ہے، جس پر چیئرمین نے جواب دیا کہ عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کریں گے، ٹاور کو گرانا بڑا مشکل کام ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجھے تعمیراتی حل بتائیں، مسئلے کا حل کیا ہے، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ ٹاور کی جگہ کو دوبارہ نیلام کیا جائے گا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تیسرے ٹاور کی تعمیر کون کرے گا۔ انہوں نے کہا 2005 میں جگہ کی نیلامی کتنے پیسے میں ہوئی، آج سی ڈی اے کو 2005 سے 15 ارب روپے لے کر دے رہے ہیں، مشکل تو ان لوگوں کو ہوگی جنہوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم سی ڈی اے کے محتاج نہیں ہیں۔ اگر کابینہ فیصلہ نہیں کرتی تو ہم میرٹ پر فیصلہ کردیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سی ڈی اے نے کابینہ کو کوئی سفارش نہیں دی۔ سی ڈے اے کے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔ اس پر سی ڈی اے کے وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ اس معاملے پر فیصلہ کابینہ نے کرنا ہے۔ کل کے اجلاس میں یہ معاملہ ایجنڈے میں شامل ہے۔ دوران سماعت سی ڈی اے کی جانب سے جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں بیٹھنے پر اعتراض اٹھایا گیا اور وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ ہمیں جسٹس اعجازالاحسن پر مکمل اعتماد ہے لیکن وہ بی این پی کے وکیل رہ چکے ہیں۔ جس پر عدالت نے اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، موجودہ کیس سے جسٹس اعجاز الاحسن کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ سماعت کے دوران بی این پی کنسورشیم کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ گرینڈ حیات کی تعمیر سال 2028 تک مکمل ہوگی، اس پر چیف جسٹس نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنے سال سے سی ڈی اے سوتی رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے نے کسی وزیر کے کہنے پر لیز منسوخ کردی اور اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔13 سال تک آپ کو یاد نہیں آئی۔ اس پر منیر پراچہ کا کہنا تھا کہ گرینڈ حیات ٹاور نیشنل پارک میں آتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا تو کیا اسے گرا دیا جائے، اس میں تو سپریم کورٹ کی عمارت اور سیکرٹریٹ بھی آتا ہے تو کیا ان کو بھی گرا دیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر آپ نے یکطرفہ طور پر لیز منسوخ کردی؟ خریداروں کے حقوق کا تحفظ کون کرے گا، آپ غلطیاں کرتے ہیں پھر کہتے ہیں گرا دیں، اسلام آباد ہی آدھا غلط بنایا ہوا ہے، آپ سے تو آج تک قوانین ہی نہیں بنے، وہ بھی طارق فضل چوہدری سے کہہ کر بنوائے، یہ کارکردگی ہے سی ڈی اے کی؟ جس پر منیر پراچہ نے کہا کہ سی ڈی اے کے اہلکاروں نے دھوکا کیا تھا، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 13 سال اس دھوکے کا خیال نہیں آیا؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے 4،4 کروڑ اس پراپرٹی کے لیے دیے ان کا کیا قصور ہے؟ ایک آدمی کے کہنے پر خریداروں کے حقوق ختم کردیے گئے۔ اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ جب صدر الدین ہاشوانی نے اس پلاٹ کی نیلامی کو چیلنج کیا تھا تو اس وقت سی ڈی اے نے دفاع کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ صرف دیکھے گی کہ لیز معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی، اس پر منیر پراچہ نے کہا کہ اس معاملے میں رشوت دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دکھائیں کہاں لکھا ہے کہ رشوت دی گئی، اس پر وکیل نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کا انتظار کرلیں۔ بعد ازاں عدالت نے بی این پی کنسورشیم کی اپیل منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے 8 سال میں بی این پی کو ساڑھے 17 ارب روپے بطور لیز ادا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے اورنج لائن منصوبہ مجوزہ تاریخ پر مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اورنج لائن منصوبے کے ڈائریکٹر سبطین فضل کی تعریف کی اور کہا کہ آپ سے گزارش ہے مجوزہ تاریخ پر منصوبہ مکمل کریں۔ اس موقع پر منصوبے کے ٹھیکیدار کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ کام کے پیسے نہیں ملتے۔ نعیم بخاری کے موقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) چیک سپریم کورٹ میں جمع کرادے اور ٹھیکیدار بینک گارنٹی جمع کراکے چیک لے سکتے ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اورنج لائن لاہور کے لوگوں کے لیے تحفہ ہے۔ ٹھیکیدار مجوزہ تاریخوں تک ہر صورت کام مکمل کریں۔ کام مجوزہ تاریخ پر مکمل نہ ہونے کو عدالتی حکم کی عدم تعمیل سمجھا جائے گا۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ جس دن گڈی چلے گی ہمیں بھی بتائیں ہم بھی گڈی کی سواری کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے نجی ہسپتالوں میں سہولیات کے فقدان سے متعلق کیس کی سماعت کے دور ان حکم دیا ہے کہ ہیلتھ کئیر کمیشن معاملے کو دیکھے اورایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے۔ جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے معاملے پر تحقیق کے لیے ہیلتھ کمیٹی قائم کی تھی ¾کیا کمیٹی کی رپورٹ آگئی ہے۔اے جے رحیم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے۔ڈاکٹر اجمل نے بتایا کہ پنجاب میں 60 ہزار نجی ہسپتال اور ڈسپنسریاں ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نجی ہسپتالوں کےلئے ریگولیشنز بنائیں ¾ریگولیشنز بن گئی تو ہسپتالوں کو درست کرنے کےلئے قانونی قوت میسر آجائے گی، چیف جسٹس نے کہاکہ گزشتہ روز پنجاب ہیلتھ کئیر کمشن نوٹیفائی ہوگیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پھر تو کمیٹی کا کام ختم ہوگیا ہے اس کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ ہیلتھ کئیر کمشن اس معاملے کو دیکھے اورایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے بعد ازاںعدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس میں سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب کو ہم تو نہیں بلاتے یہ کیوں آتے ہیں ؟ ہم نے تو آڈیٹر جنرل سے جواب مانگا تھا۔ وکیل کامران مرتضی نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس صاحب آڈیٹر جنرل نے لاہور میں جواب جمع کرا دیا۔ چیف جسٹس نے کہا اگلے ہفتے جواب آجائے تو پھر کیس سنیں گے۔ سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔ مزید برآں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جیکب آباد میں نایاب عمرانی کے خاندان کے قتل پر ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت سندھ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ قتل کے ملزمان گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ مرکزی ملزم شفقت کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نایاب عمرانی کی مدد کرنی تھی، کافی حد تک ہو گئی ہے اب یہ معاملہ پولیس دیکھے گی۔ اس موقع پرنایاب عمرانی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے سارے خاندان کو مار دیا گیا اپنے خاندان میں سے صرف وہ زندہ ہیں سندھ میں انہیں حفاظت نہیں مل سکتی وہ وہاں نہیں جا سکتیں۔ نایاب عمرانی نے عدالت سے مقدمہ پنجاب منتقل کرنے کی درخواست کی جس کے بعد سپریم کورٹ نے نایاب عمرانی سے متعلق چیف جسٹس کا ازخود نوٹس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ میں پائلٹس اور کیبن کریو کی ڈگریوں سے متعلق کیس نمٹا دیا گیا۔ دوران سول ایوی ایشن کے وکیل نے عدالت کے گوش گزار کیا کہ 16 پائلٹس اور 65 کیبن کریو کی ڈگریاں جعلی نکلی ہیں جن کے لائسنس معطل کر دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 6 ڈگریوں کے علاوہ تمام ڈگریوں کے تصدیق ہو چکی ہے جن 6 ڈگریوں کی تصدیق رہتی ہے وہ لوگ بیرون ملک ہیں۔ چیف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کاہ کہ ایسا تاثر ہے کہ عدالتی حکم پر عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ہم کسی کے رزق پر قدغن نہیں لگانا چاہتے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جن سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ان پائلٹس اور کیبن کریو کو معطل کیا گیا ہے وہ ریکارڈ درست ہونا چاہئے۔ ایک متاثرہ پائلٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ میری ڈگری اصل ہے مگر پھر بھی میرا لائسنس معطل کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جس کا مسئلہ ہے وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرے۔ سپریم کورٹ نے پائلٹس اور کیبن کریو کی ڈگریوں سے متعلق کیس نمٹاتے ہوئے کہا کہ تمام ائر لائنز کے 16 پائلٹس اور 65 کیبن کریو کی ڈگریاں جعلی نکلیں جن کے لائسنس معطل کر دیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن