• news
  • image

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعد، اب ایم کیو ایم …!

ن لیگ کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت اور دیگر رہنمائوں کیخلاف بھی اب قانون کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے سمیت سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کے انکشافات اور اُن کی رپورٹس نے ہر طرف سراسیمگی پھیلا دی ہے۔ ان انکشافات اور رپورٹس کے بعد جو ہلچل مچی ہوئی ہے، وہ کسی آنیوالے نئے طوفان کا پتہ دے رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے جو کرشماتی واقعات سامنے آئے ہیں، وہ حیرت انگیز ہی نہیں انتہائی چونکا دینے والے ہیں۔ کہیں رکشہ ڈرائیور اور کہیں فالودہ فروش کے جعلی اکائونٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کے معاملات سامنے آئے ہیں اور کہیں اومنی گروپ کی وساطت سے اربوں ڈالر کی بیرون ملک غیر قانونی منتقلی کے انکشافات ہوئے ہیں۔ ابھی پیپلز پارٹی کے حوالے سے منی لانڈرنگ کی یہ ہوشربا داستانیں زبانِ زدِ عام تھیں کہ اب یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم کی ’’خدمت خلق فائونڈیشن‘‘ نے بھی بھتے کے ذریعے کراچی، اور لاہور میں اربوں روپے کی جائیدادیں بنائی ہیں جبکہ بھتے کی یہ رقوم جو کروڑوں ڈالر پر محیط ہے ، الطاف بھائی کو اُن کے اکائونٹ میں لندن بھی منتقل کی گئی ہے۔ ایف آئی اے نے بھتے کی رقوم سے خریدی گئی ایسی 39جائیدادوں کا سراغ لگا کر اُنکی ضبطگی کی کارروائی شروع کر دی ہے اور بیشتر جائیدادیں اب تک حکومت کے قبضے میں آ گئی ہیں جبکہ دیگر پر کارروائی جاری ہے۔ اس صورتحال نے ایم کیو ایم کی صفوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے اور کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر مہاجر آباد میں اس حوالے سے پارٹی رہنمائوں کی روزانہ کی بنیاد پر میٹنگیں شروع ہو گئی ہیں جس میں نئی صورت حال پر غور کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی جو پہلے ہی سے زیر عتاب ہے اس نئی صورتحال کے بعد سے ہم سندھ کے سیاسی ماحول میں مزید گرما گرمی دیکھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے ویسے بھی سندھ پر اس معاملے کو لے کر شدید یلغار کر رکھی ہے۔ مرکزی اور صوبائی قیادت کا مشن ہے کہ جو بھی ہو جائے ہم نے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو تبدیل کرنا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اسی خاص مشن کے تحت گزشتہ ہفتے کراچی آنیوالے تھے لیکن سپریم کورٹ کے ایک حکم اور ریمارکس کے بعد اُن کی کراچی آمد رک گئی ۔ تاہم پی ٹی آئی اب بھی درپردہ اپنی ’’سندھ حکومت تبدیلی‘‘ ترجیحات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُن کی کوشش ہے کہ پی پی پی کے صوبائی ارکان اسمبلی (سندھ) کا فارورڈ بلاک بنا دیا جائے۔ اس طرح جے ڈی اے کے ممبران کو ساتھ ملا کر سندھ میں اپنی حکومت قائم کر لی جائے۔ مگر صورتحال ہے اُس تناظر میں ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت بار بار اس بات کا برملا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اُن کا منی لانڈرنگ کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ نیب ، ایف آئی اے اور جے آئی ٹی کا حکومت سے جو گٹھ جوڑ ہے اُس کے تحت پیپلز پارٹی کو سندھ کی سیاست سے جو آئوٹ کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ مگر ایسا ہو گا نہیں کیونکہ اُن کا ایک بھی رکن سندھ اسمبلی کسی فارورڈ بلاک کا حصّہ بننے کیلئے تیار نہیں۔ تمام حالات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سندھ حکومت کو ابھی کوئی خطر نہیں۔ اُن پر پی ٹی آئی کی طرف سے خطرے کے جو بادل منڈلا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے بعد چھٹ چکے ہیں اوراب پی ٹی آئی کیلئے بھی ممکن نہیں رہا کہ وہ سندھ پر کسی قسم کی یلغار کر سکے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کی جانب سے تند و تیز بیان بیازی کا سلسلہ جاری ہے جس سے سیاسی ماحول میں خاصی رسہ کشی اور گرما گرمی پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انہونی قوت سیاست کے افق سے پی ٹی آئی کو چھو ڑ کر دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو غائب کرنا چاہتی ہے تاکہ پی ٹی آئی کیلئے فضا سازگار اور راستہ ہموار رہے۔ مگر ایسا شاید ممکن نہ ہو کیونکہ میڈیا جاگ رہا ہے اور اُسکی ہر معاملے پر نظر ہے۔ سیاست اور سیاسی ماحول میں تغیر و تبدل کا جو سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اُس سے مکمل آگاہی حاصل ہو رہی ہے اور شعور اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ نئے حالات کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھنے لگ گئے ہیں اور آگاہ ہیں کہ کہاں، کیا ہو رہا ہے؟پی ٹی آئی کو اس وقت گرم سیاسی ماحول کے علاوہ سخت معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ مہنگائی بھی روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ پی ٹی آئی جو دعوے کر کے حکومت میں آئی تھی وہ موجودہ صورتحال میںپورے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ اس لیے اپوزیشن کے کئی رہنمائوں اور غیر جانبدار ناقدین کو کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ حکومت زیادہ دیر تک چلتی نظر نہیں آ رہی ۔ اس میں شک نہیں کہ عمران خان پرکوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ وہ نیک نیت ہیں لیکن اُنکی ٹیم اتنی باصلاحیت نہیں کہ حالات کو صحیح اور درست سمت کی طرف لے جا سکے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ خیر کرے ہمیں مستقبل قریب کے حالات کچھ ٹھیک نہیں دکھائی دیتے۔

سعد اختر

سعد اختر

epaper

ای پیپر-دی نیشن