گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر
وزیراعظم عمران خان کی موجودہ حکومت سے کشمیریوں کو امید ہو چلی ہے کہ وہ اس دیرینہ مسئلہ کے حل کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ اس وقت وہ واحد رہنما ہیں جو اپنے مضبوط طرز عمل اور فیصلوں سے اس مسئلہ پر کوئی واضح قدم اٹھا کر بھارت کومجبور کر سکتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کرے۔ اس وقت بھارت پر اندرونی اور بیرونی دبائو بھی ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے زچ ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی عروج پر ہے۔ ان حالات میں حکومت پاکستان یکسو ہو کر کام کرے تو فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان بھی بطور ریاستی حصہ ہونے کے اس مسئلہ میں شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے برعکس گلگت و بلتستان کے معاملے میں کچھ زیربحث امور ہیں مگر گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک بات طے شدہ ہے کہ 1948ء میں یہاں کے عوام نے مہاراجہ کشمیر کے خلاف بغاوت کر کے اپنا علاقہ آزاد کرایا۔ دوسری بات یہ کہ 1947ء تک یعنی قیام پاکستان تک یہ علاقہ مہاراجہ کشمیرکی ریاست کا حصہ تھا۔
اگر مہاراجہ 1947 ء میںالحاق پاکستان پر مکمل اعتماد کے ساتھ قائم رہتا اور بھارت کی چالوں میں نہ آتا تو یہ علاقہ جواس وقت ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ تھا مکمل طور پر اسی حالت میں پاکستان میں شامل ہوتا اور پاکستان کا پانچواں صوبہ ہوتا۔ 1987ء میں ہی آزاد کشمیر والوں نے اپنا علاقہ آزاد کرایا۔ اس وقت تک یہ تمام علاقہ یعنی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ایک ہی منسٹری کے زیر انتظام رہے۔ پھر چودھری غلام عباس مرحوم نے کراچی معاہدے کے تحت اس وسیع علاقے یعنی گلگت بلتستان کی سپردداری پاکستان کے حوالے کر دی کہ آزاد کشمیر کی حکومت اتنے بڑے علاقے کا انتظام وانصرام سنبھال نہیں سکتی۔ یہ فیصلہ انہوں نے حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے کیا۔ اپنی ذاتی حیثیت سے کیا اس پر بحث کرنا ایک اور نئے ہنگامہ خیز موضوع کو جنم دیتا ہے۔ تاہم آج تک خود چودھری غلام عباس کی جماعت مسلم کانفرنس ، آزاد کشمیر پیپلز پارٹی ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی، لبریشن لیگ، مسلم لیگ آزاد کشمیر یہ سب اس بات پر متفق ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں کہ یہ علاقہ متنازعہ ریاست کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رائے شماری کی قراردادوں کے مطابق جموں، کشمیر ، لداخ گلگت بلتستان کشمیری اکائی ہیں اور ان سب میں رائے شماری کرا کے یہاں کے عوام سے یہ فیصلہ لینا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ ابھی یہ فیصلہ باقی ہے۔
معاہدہ کراچی کے بعد گلگت بلتستان براہ راست پاکستان کے کنٹرول میں چلا گیا۔ اس کی نگہداشت تعمیر و ترقی اور سرکاری امور پاکستان نے سنبھال لیا۔ اس کے بعد وہاں ترقی ہوئی یا نہیں ہوئی عوام کو ان کے کیا اور کونسے حقوق ملے یا نہیں ملے۔ یہ وہاں کے لوگ جانتے ہیں یا حکومتیں۔ خود آزاد کشمیر کی حالت دیکھ لیں مسلم کانفرنس ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں وہاں کا کیا حشر ہوا۔ ترقی کتنی ا ور تخریب کتنی ہوئی۔ گدھوں ا ور خچروں پر سفر کرنے والے کس طرح لینڈ کروزروں ،عالی شان بنگلوں ، غیر ملکی جائیدادوں اور اکائونٹس کے مالک بن گئے۔ ا س کا موازنہ اگر گلگت بلتستان سے کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزادکشمیر کے کرپٹ حکمرانوں نے بے تحاشہ ترقی کی اور پھلنے پھولنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ گلگت بلتستان میں یہی کہانی ذرا مختلف انداز میں دہرائی گئی وہاں براہ راست اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی نے آمریت اور جمہوریت دونوں ا دوار میں خوب کمایا اور کھایا۔ خواہ سول ہو یا وردی والے سب نے حصہ بقدر جثہ دام کھرے کئے۔ پھر سابقہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے عہد میں یہاں صوبہ بنانے کی تحریک کو بھرپور حمایت حاصل ہوئی اور مسلم لیگ کے دور میں یہاں یہ کام بھی بخیرو خوبی انجام پایا۔ مگر یہ اس دولہے کی طرح ہے جس کی ہنوز کوئی دلہن ہی نہیں۔ اقوام متحدہ اس تمام علاقے کومتنازعہ قرار دیتی ہے مگر ہمارے ہاں ا ن علاقوں کو جو متنازعہ ہیں صوبے بنانے کے چکر میں لوگ اور حکومتیں اصل راہ سے ہٹ رہی ہیں۔ مگر کہتے ہیں ناں کہ ہر شر میں سے ہی خیر جنم لیتا ہے۔ سو ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد بھارت کو ہوش آنے لگا وہ بھی جموں کشمیر کو متنازعہ تسلیم کر رہا ہے۔ اب پاکستانی سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے حوالے سے کیس کی سماعت مکمل کر کے اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔اس بارے میں تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا مگر حکومت پاکستان یاد رکھے کہ وہ اس سارے قضیۂ کی فریق ہے۔ اس نے پوری ریاست جموں و کشمیر بشمول لداخ گلگت بلتستان کو ایک اکائی تسلیم کیا ہے۔ اس کام میں بھارت اور ا قوام متحدہ کی بھی یہی رائے ہے۔ تو جب تک ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری نہیں ہوتی کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے مسئلہ کشمیر کوزک پہنچے۔ ہاںاگر کرنا ہی ہے تو موجودہ آئینی حیثیت میں گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی کی نئی نئی راہیں کھولے۔ وہاں کے عوام کو مکمل حقوق دئیے جائیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کو ترقی دینا اس عزم کااظہار ہو گا کہ یہ پاکستان کی شہ رگ ہیں اور پاکستان انہیں اپنا جائز حصہ تسلیم کرتا ہے۔مگر ان کی حیثیت میں تبدیلی کرتے وقت اس کے مضمرات و نتائج پر بھی ذہن میں رکھنا ہوں گے…