• news

قانون سازی کیلئے مل جل کر چلیں گے : اسد قیصر خورشید شاہ میں اتفاق

اسلام آباد ( سپیشل رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی) سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر اور سید خورشید شاہ میں موثر قانون سازی کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت پر اتفاق کیا ہے۔ سپیکرقومی اسمبلی نے کہا ہے کہ پارلیمان کے ماحول کو پرامن رکھنا اور پارلیمان کے وقار میں اضافہ کرنا حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ کے وقار میں اضافے کے لیے ہمیں پارلیمانی اقدار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوے باہمی احترام اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔ تنقید اپوزیشن کا حق ہے تاہم تنقید برائے تنقیدنہیں ہونی چاہیے بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ اس امر کا اظہار انھوں نے سید خورشید احمد شاہ سے ملاقات میں کیا۔ملاقات میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل قانون سازی اور دیگر پارلیمانی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اسدقیصر نے کہا کہ اس وقت ملک کو جن چیلینجوں کا سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اہمیت کے حامل معاملات کو پارلیمینٹ کے ذریعہ حل کرنے کے لیے اپوزیشن کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسپیکر نے پارلیمانی ماحول کو سازگار بنانے میں اپوزیشن کے کردار کو سراہا۔ پریس ریلیز کے مطابق خورشید احمد شاہ نے سپیکر کے غیر جانبدارانہ کردار کو سراہا اور قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں اپنی جماعت کی طرف سے ہر ممکن تعاون کی یقین د ہانی کرائی۔ انہوں نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے معاملے کو خو ش اسلوبی سے حل کرنے اور دیگر قائمہ کمیٹیوں کی جلد تشکیل کے لیے سپیکر کی کاوشوں کی بھی تعریف کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل باہمی مشاورت سے جلد مکمل کر لی جائے گی۔ موثر قانون سازی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین اتفاقِ رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ خورشید شاہ کی قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات میں قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل اور اپوزیشن کی ان میں نمائندگی پر تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے۔ سپیکر نے خورشید شاہ کو یقین دلایا ہے کہ 14 جنوری کو شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوںکا قیام مکمل ہو جائے گا تاکہ پارلیمنٹ م¶ثر طور پر اپنا کردار ادا کر سکے۔ قابل اعتماد ذرائع نے ”نوائے وقت“ کو بتایا ہے کہ بات چیت میں نیب قوانین میں تبدیلی پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ خورشید شاہ نے سپیکر کو ان خیالات پر پیپلز پارٹی کے م¶قف سے تفصیل سے آگاہ کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ا پوزیشن عوامی مسائل کے حل کیلئے قانون سازی میں تعاون پر تیار ہے سابق اپوزیشن لیڈر نے حکومت کو منی بجٹ نہ لانے کا مشورہ دے دیا اور واضح کیا ہے کہ اپوزیشن عوام پر بوجھ ڈالنے والے کسی بھی اقدام کی مخالفت کرے گی۔ کمیٹیوں کو جلد فعال بنانے میں اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے۔سپیکر حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے عوامی مفاد کی قانون سازی ناگزیر ہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن رہنماوں کے درمیان ملاقات ہونی چاہیے۔انہوںنے کہاکہ نواز شریف ابھی جیل میں ہیں ¾نواز شریف جب باہر آئیں گے تو ملاقات ہو جائےگی۔ نواز شریف ایک دو ماہ میں جیل سے باہر آ جائیں گے ۔ سید خورشید شاہ نے کہاکہ عمران خان کے خلاف نیب کیسز وزیراعظم کی توہین نہیں ¾انصاف سب کے ساتھ ایک جیسا ہونا چاہیے۔انہوکںنے کہاکہ ماضی میں وزیراعظم گیلانی اور نواز شریف کو عدالت نے سزا دی جبکہ صدر زرداری نیب اور عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے معاملے میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ¾طے تھا کہ آئندہ اجلاس میں حکومت اپوزیشن بیٹھیں گے، 14 یا پندرہ کو اپوزیشن نمائندوں سے وزیر پارلیمانی امور کی میٹنگ ہو گی ¾ سید خورشید شاہ نے کہا کہ امید ہے اس میٹنگ میں قائمہ کمیٹیاں فائنل ہو جائیں گی۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں ۔انہوںنے کہاکہ ہم ایشوز پر متفقہ موقف اپناتے ہیں، ہمارے آپس میں مکمل رابطے ہیں۔ باقی یہ سب کو سمجھنا چاہیے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دو الگ جماعتیں ہیں۔نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ آیا وہ ایسا نہیں کہ ضمانت نہ ہو۔حکومت اپوزیشن کا آئندہ ہفتے مشترکہ مشاورتی اجلاس ہو گا، سابق قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تصدیق کر دی ہے، اجلاس 14، 15جنوری کو متوقع ہے،پارلیمینٹ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ساری اپوزیشن یکجا ہے عمران خان کوپارلیمنٹ میں ڈھونڈ رہے ہیں، وہ پارلیمنٹ اس لئے نہیں آتے کیونکہ سمجھتے ہیں کہ یہ جعلی ہے ان کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، معاملات کو حل کرنا ہے تو پارلیمنٹ کو منبع بنانا ہو گا۔ نوازشریف کو پارٹی کی طرف سے خط بھجوانے سے آگاہ ہیں نہ میں کسی کو خط لکھتا ہوں اور اب تو سیاسی جماعتوں میں قریبی رابطے رہتے ہیں خط کی کیا ضرورت ہے۔ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جس نے ماضی میں محمد نوازشریف کو بھی بچایا تھا۔ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا ، حلیف اور حریف تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہم نے لوگوں کو سیاستدانوں کے پا¶ں پکڑتے دیکھا۔ قرآن پاک لے کر پارلیمنٹ آتے دیکھا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔سیاسی جماعتوں میں کسی بھی وقت رابطوں کا تعطل نہیں آتا،رابطے رہتے ہیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ عمران خان سوچ لیں۔پارلیمانی کمیٹی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے بنائی گئی مگر اب حکومت خود ہی اس معاملے میں بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پارلیمانی کمیٹی غیرفعال ہو کر رہ گئی ہے۔ انہوں نے چار حلقوں کی بات کی تھی۔ میں عمران خان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سندھ خیبرپی کے اور پنجاب میں تین حلقے کھلوا دیں۔لگ پتہ جائے گا ویسے عمران خان کو خود بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے اسے لایا گیا ہے۔ لانے والوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کیوں اپنے خلاف عوام میں منفی تاثر پیدا کرتے ہیں۔قومی اسمبلی کی 35 قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا مرحلہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے تاہم امید کی جارہی ہے کہ پیر کو شروع ہونے والے سیشن کے دوران تمام کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل مکمل کرلیا جائے گا۔ قومی اسمبلی سکریٹریٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی پی اے سی کے علاوہ 36 کمیٹیاں ہیں جن میں سے قانون انصاف کی قائمہ کمیٹی تشکیل پا چکی ہے۔ 35 کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل رکا ہوا ہے۔ گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان سے ملاقات میں بھی اس معاملے میں اپنی گہری دلچسپی ظاہر کی کہ کمیٹیوں کی تشکیل کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے۔
اسد قیصر/ خورشید شاہ

اسلام آباد، کراچی، پنڈی (نمائندہ خصوصی، سٹاف رپورٹر، وقائع نگار خصوصی) ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق آصف زرداری یا کسی اور کو گرفتار کیا جائے تو حرج نہیں مگر جے آئی ٹی کی رپورٹ پر گرفتاری ہوئی تو ردعمل آسکتا ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے راولپنڈی میں بیوریج پلانٹ کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ نوازشریف بطور وزیراعظم نیب میں پیش ہو سکتے ہیں تو ہر اس شخص کو بھی نیب کے سامنے جانا چاہئے جس کو نیب طلب کرے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا مزید کہنا تھا ہماری خواہش ہے کہ پاکستان معاشی اعتبار سے دنیا میں سب سے آگے ہو۔ شیخ رشید کے بارے میں سوال کے جواب میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے کہا کہ کسی ایک طبقے کی خرابی ملک کی خرابی ہوگی۔ آنے والے وقت میں سیاستدانوں کے برے حال کی شیخ رشید کی جانب سے کی گئی پیشن گوئی میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا شیخ رشید کو ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس قسم کے نوٹس سے ارکان پارلیمنٹ کو ڈرایا نہیں جاسکتا، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ نوٹس پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اپنا ٹوئٹ واپس لینے کا کہا گیا، میں چیئرمین سینٹ سے کہتا ہوں کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔ ارکان سینٹ کے خلاف اس قسم کا کیس رجسٹرڈ کرنے کی سب سے پہلے میں مخالفت کروں گا۔صادق سنجرانی کے خلاف کوئی تحریک نہیں لائی جارہی۔تاہم انہوں نے عندیہ دیا کہ اگر اپوزیشن جماعتوں نے کوئی متفقہ فیصلہ کیا تو صادق سنجرانی جس آفس میں بیٹھے ہیں اس آفس کے خلاف تحریک لائی جاسکتی ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ جے ایس گروپ ایئر بلیو کا بزنس پارٹنر تھا اور اب بھی ہے ، جس میں عدالت میں ثابت کروں گا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے مطالبہ کیا کہ تمام ثبوتوں کی روشنی میں علی صدیقی کے اثاثوں ، کاروبار اورایئربلیو میں سرمایہ کاری کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کرے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ علی جہانگیر صدیقی کی امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی کی انکوائری کرائے اور حقائق قوم کے سامنے پیش کرے۔ الیکشن سے قبل فواد چوہدری نے نگراں حکومت کو خط لکھ کر انکشاف کیا تھا کہ علی جہانگیر صدیقی کی امریکہ میں سفیر کی تعیناتی میرٹ کی خلاف ورزی ہے مگر علی جہانگیر صدیقی نے انہیں کوئی نوٹس نہیں بھیجا۔ علی جہانگیر صدیقی نے نوٹس بھیج کر میری سیاسی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ علی جہانگیر صدیقی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔چیئرمین نیب علی جہانگیر صدیقی کو فوری طور پر گرفتار کرکے تفتیش کریں۔پیپلز پارٹی کے رہنما تحریک انصاف پر برس پڑے اور علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا مطالبہ کردیا۔سعید غنی نے کہا کہ نہ کاروبار نہ محنت مزدوری، ماجرا کیا ہے؟ لوگ غریبوں کے علاج کیلئے پیسے دیتے تھے، املاک خریدنے کیلئے نہیں، جے آئی ٹی عمران خان اور علیمہ خان کے خلاف تحقیقات کرے۔ علیمہ خان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے۔سعید غنی نے کہا کہ ابھی تک بلاول زرداری کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا گیا، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ نام ای سی ایل سے نکالیں مگر عمل نہیں ہوا، سندھ کو وفاق سے فنڈز جاری نہیں کئے جارہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی، صدقہ اور خیرات کی رقم غریبوں کی امانت تھی، انصاف کا تقاضا ہے کہ علیمہ خان کے خلاف جے آئی ٹی بنائی جائے، جے آئی ٹی عمران خان اورعلیمہ خان کے خلاف تحقیقات کرے، علیمہ خان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔صوبائی وزیر سعید غنی نے سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علیمہ خان کے پاس کس ذرائع آمدن سے یہ جائیدادیں آئیں؟ دعویٰ کرتا ہوں کہ عمران خان صاحب کا گھر رقبے میں سب سے بڑا ہے، مطالبہ کرتا ہوں شوکت خانم میموریل کیلئے جو چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اسکا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے۔ عمران خان قوم کواپنا ذریعہ آمدنی بتائیں اور بتائیں کہ ان کی بہن علیمہ خان کے پاس بیرون ملک کون کون سے جائیدادیں ہیں۔شوکت خانم میموریل کے فنڈز کی فورنزک آڈٹ کرائی جائے کیونکہ بیرون ملک سے آنے والی امداد میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی خبریں ہیں۔ میں وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ تجویز دوں گا کہ وہ ان وفاقی وزراءکی سندھ میں داخلے پر پابندی عائد کریں جو سندھ میں انتشار پھیلانے کی سازش کررہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا وفاقی وزراءکی حرکتوں اور فیصلوں سے سندھ دشمنی واضح ہورہی ہے۔این این آئی کے مطابق پیپلزپارٹی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات حسن مرتضی نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران نیازی کا دن بدن بطور خیرات چور اور کرپٹ چہرہ واضح ہو رہا ہے،علیمہ خان انکی فرنٹ لیڈی ہیں،علیمہ کے نام پر نکلنے والی ساری جائیدادیں دراصل عمران نیازی کی ہیں،سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ کے نام ای سی ایل سے نہیں نکالے گئے ،چور چور کا شور مچا کر حکومت احتساب کے نام پر انتقام لے رہی ہے اگر نیب کی تحقیقات وزیراعظم کی توہین ہے تو یہ معیار وزیراعلی کیلئے کیوں نہیں،پارٹی قیادت نواز شریف سے ملنے نہیں جا رہی ۔

ای پیپر-دی نیشن