• news

ڈیمز کی تعمیر ناگزیر سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمیں پورا پانی نہیں مل رہا : چیف جسٹس

لاہور، اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ قاضی عہدہ جاب نہیں ایک پیشن ہے۔ اس عہدے پر بیٹھ کر اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے ہی نظام انصاف کو تقویت ملتی ہے آج ہم جس آزادی میں سانس لے رہے ہیں اس کا ضامن پہلی نظام انصاف ہے لاہور ہائیکورٹ بار میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ قائم نہیں رہ سکتا اس بلنگ اور ادارے کا احترام شاہد ماضی کی نسبت اب کچھ کم ہے اس کی وجہ شاہد یہ ہے کہ لوگوں کو فوری انصاف نہیں ملتا ماضی میں ججز اپنا فرض سمجھ کر انصاف کرتے تھے اور وکلاءبھی فیسیں لئے بغیر بنیادی حقوق کے مقدمات لڑ لیا کرتے تھے ہم کو دوبارہ اسی جذبے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ خدا نے انسان کو جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں سب سے بڑی نعمت آزاد ملک اور اس سے محبت کرنا ہے انہوں نے ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس منصب کو روزگار کے ساتھ اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ کر انصاف کریں انہوں نے عالم دین مولانا طارق جمیل کی خطاب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ روز محشر چھا¶ں والی جگہ پر پہلی آواز قاضی کو پڑے گی اس لئے اپنے منصب کو جاب نہیں قوم کی خدمت سمجھ کر کریں انہوں نے کہا کہ میں نے جوڈیشل ایکٹوازم کا سلسلہ عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے شروع کیا میرا مقصد کسی ادارے کے آئینی اور قانونی اختیارات میں مداخلت کرنا نہیں میں نے بنیادی حقوق کے کیسز سنتے اور ہسپتالوں میں جاتے ہوئے اس تفریق کو ہمیشہ مدنظر رکھا کہ تمام ادارے اپنے آئینی اختیارات میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں انہوں نے کہا کہ مجھ سے دانستہ اور غیر دانستہ کئی غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر اس میں میری بدنیتی کبھی بھی نہیں رہی میں رول آف لاءکے لئے کسی کی سرزنش ضرور کی ہو گی مگر کسی کی تضحیک کیلئے ایسا نہیں کیا عدلیہ اور وکلاء لازم و ملزوم ہیں ہم 14 جنوری کو پولیس ریفارمز کی شکل میں ایک تحفہ دیں گے سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف بیشتر ریفرنسر کو میرٹ پر نمٹا دیا گیا ہے صرف دو ریفرنس زیر التواءہیں ہماری ایک ہی پالیسی اور ذمہ داری ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف ریفرنس بنتا ہے تو ضرور کارروائی ہوگی ورنہ جج کو بلیک میل نہیں ہونے دیں گے انہوں نے پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل سے کہا کہ وہ بھی اپنے وکلاءکا احتساب کریں انہوں نے تقریب میں شامل تمام ججز اور وکلاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پیار نے آنکھیں نم کر دیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا میری لاہور ہائیکورٹ کے ساتھ وابتگی 56 سال سے ہے میرے والد صاحب نے یہاں پریکٹس بھی کی عوام کو وہ انصاف نہیں مل رہا جو ملنا چاہئے تھا نعمتوں میں پاکستان کو پہلے نمبر پر شمار کرتا ہوں جب سے میں نے کھلی کچہری کا سلسلہ شروع کیا تو بہت مظلوم لوگ دیکھے میں نے نیک نیتی سے جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی ۔ ظلم اور کفر کا معاشرہ مل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی کو انٹرویو میں جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمیں پورا پانی نہیں مل رہا۔ ڈیمز کی اشد ضرورت اور تعمیر ناگزیر ہے پاکستان میں ڈیم نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں جو میں نہیں بتا سکتا آئندہ نسلوں کو بچانے کیلئے ڈیم کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ ڈیمز تعمیر نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ 40 سال سے ڈیم کیوں نہیں بنے اس معاملے کو دیکھنا چاہئے اور عوام کو ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کا پتا چلنا چاہئے ان کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں ڈیم بننا ہے وہاں زمین کے مسائل حل ہو گئے۔ اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر ڈیم فنڈز میں حصہ ڈالا اور ڈیمز کی تعمیر سے متعلق فنڈز کی کمی انشاءاللہ جلد پوری ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سے کہا تھا کہ ڈیمز کی تعمیر نہ ہونے کا معاملہ دیکھنا چاہئے، ڈیمز کی تعمیر سے متعلق لگ رہا تھا کہ اس میں 9 سے 10 سال لگیں گے لیکن امید ہے کہ 5 سے 7 سال کے دوران ڈیمز کی تعمیر مکمل ہو گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کالا باغ ڈیم جیسے مسائل کھڑے کئے گئے ہیں۔ڈیم کیلئے جنگی بنیادوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔خواجہ سرا تک نے ڈیم کی تعمیر کیلئے لاکھ روپے دیئے۔آئندہ نسلوں کو بچانے کے لئے ڈیم کے سواکوئی راستہ نہیں۔ ڈیم

ای پیپر-دی نیشن