ہمیں بھارت کی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ والی پالیسی سے بہرصورت ہوشیار رہنا ہے
بھارت کی پاکستانی آبی ماہرین سے اپنے زیرتعمیر ڈیمز کا معائنہ کرانے پر آمادگی اور فیصل واوڈا کی مزید توقعات
پاکستان اور بھارت کے مابین آبی مسئلہ پر اہم پیش رفت ہوئی ہے اور بھارت نے سندھ طاس معاہدے کا تنازعہ حل کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے مطابق پاکستان کی درخواست پر بھارت نے دریائے چناب پر منصوبوں کے معائنہ کیلئے پاکستان کی درخواست قبول کرلی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے آبی وسائل کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے اپنی تین رکنی ٹیم کو معائنہ کیلئے بھارت جانے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ خصوصی ٹیم 27؍ جنوری سے یکم فروری تک منصوبوں کا معائنہ کریگی۔ اس پاکستانی وفد کی قیادت انڈس واٹر کمشنر سید مہرعلی شاہ کرینگے۔ وفاقی وزیر نے بھارت کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ بھارت دیگر حل طلب مسائل پر بھی بات چیت پر آمادہ ہو جائیگا۔ انڈس واٹر کمشنر نے بتایا کہ پاکستانی وفد دریائے چناب پر بننے والے منصوبے لوئرکنائی اور پکل دل کا معائنہ کریگا۔ انکے بقول سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھرپور آواز بلند کی ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے باور کرایا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمیں پورا پانی نہیں مل رہا۔ ہمیں ڈیمز کی اشد ضرورت اور انکی تعمیر ناگزیر ہے۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیم نہ بننے کی کئی وجوہات ہیں جو وہ بتا نہیں سکتے تاہم آئندہ نسلوں کو بچانے کیلئے ڈیمز کے سوا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ انکے بقول ڈیمز تعمیر نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ 40 سال سے ڈیم کیوں نہیں بنے‘ اس معاملہ کو دیکھنا چاہیے اور عوام کو ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کا پتہ چلنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر ڈیم فنڈ میں حصہ ڈالا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ ڈیمز کی تعمیر سے متعلق فنڈز کی کمی جلد پوری ہو جائیگی۔ انکے بقول کالاباغ ڈیم جیسے مسائل کھڑے کئے گئے ہیں‘ ڈیمز کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کا دریائے چناب پر اپنے زیرتعمیر ڈیمز کے معائنہ پر آمادہ ہونا یقیناً خوش آئند ہے تاہم ہمیں اسکے ماضی کے طرز عمل اور ہماری سالمیت کیخلاف جاری سازشوں کے تناظر میں زیادہ خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے اور ہماری آبی ماہرین کی ٹیم کو پورا ہوم ورک کرکے بھارت جانا چاہیے تاکہ وہ بھارتی زیرتعمیر ڈیمز کے ہر اس مقام اور انکے تیار کئے گئے ڈیزائنرز کا پوری باریک بینی سے جائزہ لے سکیں جہاں سے بھارت ہمارا پانی روک کر یا اسکے بہائو میں کمی لا کر ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ بھارت کی جانب سے ہماری درخواست کو شرف قبولیت ملنے کا عندیہ دیا ہے اور اس بھارتی اقدام کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ اس توقع کا بھی اظہار کیا ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ دیگر حل طلب مسائل پر بھی بات چیت کیلئے آمادہ ہو جائیگا تاہم بھارت کا ماضی قریب تک جو طرز عمل رہا ہے‘ اسکے پیش نظر ڈیمز کے معائنہ کی اجازت دینا بھارت کا کوئی نیا ٹریپ بھی ہو سکتا ہے۔ وفاقی وزیر موصوف کو یقیناً اس بات کا علم ہوگا کہ بھارت اپنے متذکرہ ڈیمز کے معائنہ کی خود ہی متعین کردہ تاریخ تین بار منسوخ کرچکا ہے جس کیلئے پاکستان پر بے سروپا الزام تراشی اور کسی نہ کسی دہشت گردی کا ملبہ ڈالنا بھی وہ ضروری گردانتا رہا ہے۔ ابھی کرتارپور راہداری کے افتتاح کو کوئی زیادہ دیر تو نہیں گزری جب نہ صرف بھارتی وزیر خارجہ اور بھارتی پنجاب کے کانگرسی وزیراعلیٰ نے وعدہ کرنے کے باوجود اس تقریب میں شمولیت کیلئے پاکستان آنے سے انکار کیا بلکہ پاکستان کیخلاف الزام تراشیوں کا ایک نیا محاذ بھی کھول لیا اور پھر اس تقریب میں شامل ہونیوالے بھارتی پنجاب کے سینئر وزیر اور معروف کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کا بھارت واپس پہنچنے پر سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر حشر کر دیا گیا۔ اس سے قبل یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جس طرح مودی سرکار نے پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی نیویارک میں باضابطہ میٹنگ کا شیڈول خود طے کرکے اس سے رجوع کیا اور پھر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے علاوہ نیویارک میں بھی کشیدگی انتہاء کو پہنچائی جبکہ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج وہاں ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ آمنا سامنا سے بھی دانستاً گریز کرتی رہیں۔ اسکے پیش نظر بھارت کی ہندو انتہاء پسند اور مکار مودی سرکار سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہمارے آبی ماہرین کو اپنے زیر تعمیر ڈیمز کے تمام سائٹس تک خوش اسلوبی سے رسائی دے دیگی۔ پھر بھی ہمارے آبی ماہرین کی ٹیم کو مکمل تیاری رکھنی چاہیے اور بھارتی ڈیمز تک رسائی ملنے کی صورت میں ان کا اس گہرائی کے ساتھ معائنہ کرنا چاہیے کہ عالمی بنک میں زیرسماعت کشن گنگا ڈیم کے کیس میں ہمارا موقف مضبوط ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمیں ماضی میں ایسے آبی ماہرین کا بھی سامنا رہا ہے جو بھارتی آلۂ کار بن کر بھارت کیخلاف آبی تنازعہ میں ہمارے موقف کی ہی نفی کرتے رہے ہیں۔ ایسے بدکرداروں میں سابق انڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ سرفہرست رہے ہیں جنہوں نے بھارتی ڈیمز کے معائنہ کے وقت وہیں بیٹھ کر یہ کہہ کر بھارت کو کلین چٹ دے دی تھی کہ بھارت ہمارا پانی ہرگز نہیں روک رہا۔ یہ صورتحال مزید افسوسناک ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس غداری پر ان کیخلاف کسی قسم کی کارروائی توکجا‘ انکی سرزنش تک نہ کی گئی۔
ایسے ہی معاملات ہمارے آبی ماہرین کے بھارتی بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ ماہرین اور ہمارے متعلقہ محکمے پہلے تو خوابِ خرگوش کی طرح سوئے رہے اور سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کو دریائے چناب‘ جہلم اور دریائے سندھ پر ڈیمز کی پہلے تعمیر کیلئے ملنے والے حق کو بھی پاکستان کے بہترین مفاد میں بروئے کار نہ لاسکے اور جب بھارت نے اسی معاہدے میں پاکستان کے بعد متذکرہ دریائوں پر ڈیمز تعمیر کرنے کے ملنے والے حق کو استعمال کرکے بگلیہار ڈیم کی تعمیر شروع کی تو بھی ہمارے ماہرین اور متعلقہ محکموں کی نیند نہ کھلی اور جب بھارت نے اس ڈیم کی تعمیر تقریباً مکمل کرلی تو ہمارے حکام کو اسے عالمی بنک میں چیلنج کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ پاکستان اسی بنیاد پر یہ کیس ہار گیا کہ اب تو ڈیم کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے جسے گرانا مناسب نہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اب ہمیں کشن گنگا کے کیس میں درپیش ہے جسے بھارت خود عالمی عدالت انصاف میں لے کر گیا ہے اور اس نے اپنے حق میں حکم امتناعی بھی لے لیا ہے۔ یقیناً اس میں عالمی عدالت انصاف کے بھارتی جج کا ہمارے خلاف تعصب بھی شامل ہے تاہم ہمارے وکلاء ٹھوس مواد‘ شہادتوں اور دلائل کے ساتھ پاکستان کا موقف پیش کریں تو بھارت کو ملنے والا یہ حکم امتناعی ختم بھی کرایا جاسکتا ہے۔ بھارت نے تو بہرصورت ایک موذی سانپ کی طرح ہمیں ڈنک مارنا ہی مارنا ہے۔ ہمیں اپنے تحفظ اور بھارتی جارحیت اور اسکی آبی دہشت گردی سے بچانے کے خود ہی مناسب اقدامات اٹھانے ہیں اور اپنے آستینوں کے سانپوں سے بھی خود کو محفوظ کرنا ہے جنہوں نے بھارتی ایماء پر کالاباغ ڈیم کو بھی متنازعہ بنا کر آج تک اسکی تعمیر کی نوبت نہیں آنے دی جبکہ یہی بھارتی گماشتے چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے باندھے گئے عزم کے آگے بھی رکاوٹ بنے اور انہیں مجبوراً کالاباغ ڈیم سے رجوع کرنا پڑا۔ ان میں اے این پی کے قائدین اور نام نہاد سندھی قوم پرستوں سمیت بعض عناصر تو اعلانیہ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرتے رہے ہیں جو درحقیقت ملک کے مفادات کو بٹہ لگا کر عملاً غداری کے مرتکب ہوتے رہے ہیں جبکہ اپنے اپنے مفادات کی اسیر ہماری حکمران قیادتوں کی جانب سے بھی انکی ہٹ دھرمیوں کے آگے سرتسلیم خم کیا جاتا رہا ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم کے ان اعلانیہ مخالفین کے علاوہ بھی کچھ عناصر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے علم میں ہیں جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں تو انہیں قومی فریضہ سمجھ کر ایسے عناصر کے چہرے بے نقاب کرنے چاہئیں تاکہ قوم کو اپنے دشمنوں اور غداروں کا علم ہوسکے۔
بھارت کی موجودہ مودی سرکار تو پاکستان مخالف اپنے ایجنڈا کی بنیاد پر ہمیں پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے جس کا نریندر مودی خود متعدد مواقع پر فخریہ اعلان اور اظہار کرچکے ہیں جبکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان تک پر نظربد گاڑے بیٹھے ہیں اور ہماری سلامتی کسی بھی قیمت پر کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس لئے ہمارے آبی ماہرین کو اسی تناظر میں بھارتی زیرتعمیر ڈیمز کے معائنہ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ متعلقہ عالمی فورمز بشمول عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف کو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ آگاہ کیا جاسکے کہ بھارت نے کس طرح ہمارے حصے کا پانی روکنے اور ہمیں بوند بوند سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ بھارت اگر ہمارے ساتھ آبی تنازعہ اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب مسائل پر دوطرفہ مذاکرات کیلئے آمادہ ہوتا ہے تو اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے تاہم ہمیں اسکی بغل میں چھری منہ میں رام رام والی پالیسی سے ضرور ہوشیار رہنا چاہیے۔