تشویشناک معاشی رجحانات
ہم نے مضمون میں ملکی معیشت کا ایک جائزہ پیش کیا تھا اور یہ بنیادی بات قارئین کے سامنے رکھی تھی کہ معیشت عدم استحکام سے دوچار ہے۔ نئے سال کے آغاز پر ہمارے سامنے نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں جو تشویش کا باعث ہیں۔سب سے پہلے ہم محصولات کی کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ چھ مہینوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے1.75روپے کے محصولات وصول کیے ہیں جو اسکے ہدف 4.3 ( چار اعشاریہ تین) ٹرلین روپے کا بمشکل 41 (اکتالیس) فیصد ہے۔ اس میں اضافہ گزشتہ سال کے مقابلے میں تین فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ سالانہ اضافہ تیرہ فیصد ہونا تھا۔ آئندہ چھ مہینوں میں اس ہدف کا حصول ناممکن ہے۔ اب خبر دوبارہ گرم ہے کہ حکومت 150 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کا ارادہ رکھتی ہے جس کیلئے ایک نیا بجٹ جلد پیش کیا جائیگا۔ ہم نے گزشتہ مضمون میں یہ ذکر کیا تھا کہ مجموعی آمدنی کا ایک فیصد ٹیکس تو حکومت چھوٹ دینے میں کھو رہی ہے یا سپریم کورٹ کے فیصلے کیوجہ سے۔ سب سے پہلے حکومت کو ان چھوٹوں سے نجات حاصل کرنا چاہیے قبل اسکے کہ وہ مزید ٹیکس لگانے کا سوچے۔ حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان 192 ارب روپے کے ٹیکسوں کا کیا ہوا جو خود اس نے اکتوبر میں لگائے تھے۔ اگر ٹیکس اقدامات کی کارکردگی کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تو مزید اقدامات کے بارے میں کیسے اطمینان حاصل ہوگا کہ وہ موثر ثابت ہونگے۔ اس سلسلے میں حکومت کا ایک مثبت فیصلہ یکم جنوری سے پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانیوالی سبسڈی کا خاتمہ اور ٹیکس کی پوری وصولی ہے۔ اس سے جاری نقصانات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی بجٹ خسارے میں اضافے کی نقیب ہے کیونکہ جیسا ہم نے پہلے بھی عرض کی تھی اخراجات میں کمی کے تو کوئی بھی آثار ہمارے سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ شرح سود میں اضافہ، شرح تبادلہ میں گراوٹ، یہ دونوں اخراجات میں اضافے کا باعث ہونگے۔ اول الذکر سے قرضوں پر سود کی ادائیگیاں بڑھ جائینگی اور ثانی الذکر سے درآمد کیلئے مختص بجٹ کو پورا کرنے کیلئے زیادہ وسائل درکار ہونگے۔ لہذا اگر اضافی تقاضے نہ بھی کیے جائیں تو بھی بجٹ شدہ اخرجات میں اضافہ ہوگا۔ ترقیاتی اخراجا ت کو کاٹنے کا عندیہ دیا ہے، لیکن وہ اخراجات جو غیر ملکی امداد سے جڑ کر کیے جاتے ہیں۔ انہیں ملتوی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک سیاسی حکومت پر منتخب نمائندوں کا دباؤ ہوتا ہے جسے روکنا آسان نہیں ہے۔ سال کے اختتام پر یہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ لہذا یہ دیکھنا ہے کہ اس سلسلے میں کس قدر کامیابی حکومت کو ملتی ہے۔ اب ہم کچھ دیگر خبروں کا ذکر کرتے ہیں جو تشویش کا باعث ہیں۔ اول، پیٹرولیم مصنوعات کی مانگ سے متعلق پچھلے چھ مہینوں کے اعداد و شمار شائع ہوئے جو مستقبل قریب میں معیشت کی ترقی کو کمزور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ تمام پیٹرولیم اشیا کی مانگ بتیس فیصد کم ہوگئی جو بارہ ملین ٹن سے کم ہوکر صرف نو ملین ٹن کے قریب رہ گئی۔ اس میں سب سے بڑی کمی فرنس آئل کی مانگ میں آئی جو67 فیصد کم ہوگئی۔ لیکن اسکی بڑی وجہ بجلی کی پیداوار میں فرنس آئل کے بجائے ایل این جی کا استعمال ہے۔ باوجودیکہ یہ ماحولیات کے لحاظ سے ایک مثبت قدم ہے لیکن درآمدات پر انحصا ر ابھی بھی وہیں کھڑا ہے۔ جو اصل تشویش ہے وہ ڈیزل کے استعمال میں کمی ہے جو بائیس فیصد کم ہوگیا۔ پیٹرول کی مانگ میں بھی دو فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ پیٹرولیم اشیاء معیشت کا ایندھن ہیں اگر ان کی مانگ میں کمی ہو رہی، ایسے موقع پر جب عالمی قیمتیں پھر کم ہوگئی ہیں وہ معاشی ترقی کی رفتار پر منفی اثرات مرتب کرینگی۔
دوم، خبر یہ بھی ہے کہ ٹریکٹر بنانے کے دو کارخانے بند ہوگئے ہیں یا بندی کے قریب ہیں۔ ملت اور غازی ٹریکٹر نے اس بندش کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان کو مانگ میں زبردست کمی کا سامنا ہے لہذا وہ مزید اسٹاک جمع نہیں کرسکتے۔ گو ابھی ان دونوں نے اپنے ملازمیں کو فارغ نہیں کیا ہے لیکن ایسا زیادہ دیر ممکن نہیں ہوسکے گا کیونکہ پیداوار کی فروخت کے بغیر ادائیگیاں کچھ دیر ہی ممکن ہیں۔زراعت پر اسکے منفی اثرات کسی تشریح کے محتاج نہیں ہیں۔ ایک اور خبر یہ کہہ رہی ہے کہ کئی دوسرے صنعتی ادارے بھی بند ہو رہے ہیں کیونکہ شرح تبادلہ کی گراوٹ نے درآمدات کو مہنگا کردیا ہے اور اس وجہ سے ان بہت ساری صنعتوں کی معاشیات بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہ تمام عوامل بالآخر روزگار میں کمی کا باعث ہونگے۔ سوم، بڑی صنعتوں کی پیداوار کے اعداد و شمار جولائی تا اکتوبر شائع ہوگئے ہیں۔ یہاں بھی صورتحال قریباً وہی ہے جس کا ذکر ابھی ہوا ہے۔ ان چار مہینوں میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ایک فیصد سے کم ہوا ہے، بمقابلہ گزشتہ سال اس عرصے میں جبکہ اضافہ نو فیصد سے بھی زیادہ تھا۔ سارے بڑے شعبوں ٹیکسٹائل، فوڈ، کیمیکلز، فارماسیوٹیکل، پٹرولیم مصنوعات اور آٹوموبائلز میں مندی کا رجحان ہے۔ اس رفتار سے پیداوار میں اضافہ واضح طور پر اشارہ کر رہا ہے کہ ملک میں ترقی کی رفتار تیزی سے کم ہورہی ہے۔ چہارم، قیمتوں میں اضافے کی شرح میں معمولی سی کمی واقع ہوئی جس کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں حیران کن کمی ہے لیکن عالمی حالات کی بے ترتیبی کسی وقت بھی صورتحال بدل سکتی ہے۔ درحقیقت افراط زر اب معمول بن گیا ہے اور ماضی قریب کا قیمتوں کا استحکام اب ختم ہوگیا ہے۔ ابھی انتظامی طور پر مقرر کی جانیوالی قیمتوں کو پوری طرح سے اطلاق نہیں ہوا ہے یعنی گیس اور بجلی۔ جب ایسا ہوگا تو قیمتوں پر اسکے اثرات مرتب ہونگے۔ معیشت میں پیداوار اور روزگا ر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایسے موقع پر جب آبادی میں مستقل اضافے کے سبب روزگار کے مواقعوں کی اشد ضرورت ہے، ترقی کے عمل میں تعطل اور رکاوٹ معاشرتی اور سیاسی استحکام کیلئے مضر ہونگے اور حکومت کو اس کیلئے شدید محنت کی ضرورت ہے۔ ایک اور بجٹ کسی خاطر خواہ نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔ اسکی بنیادی وجہ ایک مربوط معاشی حکمت عملی کا فقدان ہے جو حکمت عملی ہمارے سامنے آرہی ہے وہ درحقیقت ٹکڑوں پر مبنی اقدامات ہیں، جیسا کہ شرح تبادلہ میں گراوٹ اور شرح سود میں اضافہ اور دوست ممالک سے قرضوں کا حصول ، جن کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ کسی مربوط منصوبہ بندی کا حصہ ہیں ، بعید از قیاس ہے۔ غیر مربوط طریقے سے پالیسیوں کی ترتیب وہ اعتماد پیدا نہیں کرسکتی جو مارکیٹ اور سرمایہ داروں کا تقاضا ہے۔ ہم نے ان صفحات پر متعدد بار گزارش کی ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے ایک معاشی تصور عوام کے سامنے رکھنا چاہیے تھا، جس میں مجموعی معیشت ( macro economy) کا عدم استحکام جویقیناً اس کو وراثت میں ملا ہے ا س کی درستگی کا نقشہ پیش کیا جاتا۔
آج تک حکومت کے اکابرین نے کسی بھی شعبے میں مرتب شدہ پالیسی پیش نہیں کی ہے۔ ابتداء میں حکومت نے بڑے اعتماد کیساتھ یہ کہا تھا کہ اْسکے پاس کئی متبادل راستے ہیں بشمول آئی ایم ایف۔ لیکن پانچ مہینے ختم ہونیوالے ہیں حکومت کی سمت کا تعین نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے گریز سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالانکہ وہ ایک ایسی چھتری ہے جس کے نیچے آکر ساری دنیا کو اعتبار آجاتا ہے کہ حکومت ایک ایسے نظم و ضبط کے تحت کام کررہی ہے جو ذ مہ داری اور سنجیدگی پر مبنی ہے۔ جو ایک مربوط پروگرام کے تحت آگے بڑھے گا۔ پچھلی حکومت نے بہت سے بل ادائیگی کیلئے نئی حکومت کی ادائیگی کیلئے چھوڑ دئیے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ ہر حکومت جانے سے پہلے مقبول فیصلے کرکے آنیوالوں کیلئے مشکلات چھوڑ جاتی ہیں۔ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے لہذا وہ آئی ایم ایف کا پروگرام کرکے اس معیشت کو گرداب سے نکالے۔