حکومت ،نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان بند گلی میں
چوہدری نثار علی خان کا شمار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ’’بانیان‘‘ میں ہو تا ہے وہ اپنی وضع قطع کے سیاست دان ہیں ۔ شاید ہی خطہ پوٹھوہار میں ان کے قد کاٹھ کا کوئی لیڈر پیدا ہوا ہے وہ تین دہائی سے زائد عرصہ سے خطہ پوٹھوہار کے ’’بے تاج ‘‘ بادشاہ ہیں ۔ جب سے پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے ان سے تعلق کو بوجھ سمجھ کر توڑ دیا ہے یا انہوں نے ہی خود تعلق کو مزید قائم رکھنا مناسب نہ سمجھا بہرحال میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کبھی کوئی گفتگو نہیں کرتے البتہ ان کے ارد گرد کچھ ’’ انقلابیوں ‘‘ نے ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ 34سالہ سیاسی رفاقت ’’تڑک ‘‘ کر ٹوٹ گئی ۔ اگرچہ چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگ(ن) سے تعلق ختم کر کے کسی اور جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا کوئی ’’ سیاسی بیٹھک ‘‘ایسی نہیں ہوتی جس میں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے تعلقات موضوع گفتگو نہ ہوں چوہدری نثار علی خان نے مسلم لیگی قیادت سے منہ موڑ لیا ہے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں یہ بات مشہور ہے اور اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے وہ ’’تنہائی پسند‘‘ لیڈر ہیں وہ عام لوگوں سے ملاقات تو کرتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے ۔وہ صبح سویرے اپنے ’’ڈیرے‘‘ کے دروازے کھول کر بیٹھ نہیں جایا کرتے بلکہ خود اپنے حلقہ کے عوام کے پاس مخصوص مقامات پر چل کر جاتے ہیں اور ان کی خدمت کو اپنا شعار بنا رلھا ہے غالباًً وہ پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جو اپنے پاس موبائل فون نہیں رکھتے اگر رکھتے بھی ہیں تو اس کا کم کم استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے ان سے کوئی شخص براہ راست رابطہ قائم نہیں کر سکتا البتہ وہ جس سے خود رابطہ کرنا چاہیں تو اپنے ہاتھ سے ٹیلی فون ڈائل کرتے ہیں میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہوں جن کا فون نمبران کو از بر ہے اور ان سے مسلسل رابطہ رہتا ہے ۔چونکہ عام لوگوں کی ان تک رسائی نہیں ہوتی لہذا ہر وقت ان کے بارے ’’ افواہ طراز فیکٹریاں‘‘ سرگرم عمل رہتی ہیںاپنی مرضی کی کہانیاں اور داستانیں گھڑ لی جاتی ہیں ۔جب سے انہوں نے مسلم لیگی قیادت سے منہ موڑا ہے پھر اس طرف نہیں دیکھا ۔ان کو منانے کے لئے مسلم لیگی رہنما رانا تنویر حسین ، سردار ایاز صاد ق اور سینیٹر چوہدری تنویرخان بار ہا ملاقاتیں کر چکے ہیں ۔ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں جس’’ گلی‘‘ میں ان کا سارا دن گذرتا تھا اب اس گلی میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔پچھلے ہفتہ عشرہ میں ان سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں مسلم لیگی رہنما شاہین خان نے گولڑہ ہائوس میں ان کے اعزاز میں دیسی کھانوں پر مشتمل ’’ برنچ ‘‘ کا اہتمام کیا تو وہاں سینئر صحافیوں عامر الیاس رانا ،طارق عزیز اور حسن ایوب کی موجودگی میں ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی دوسری نشست چوہدری نثار علی خان کے’ اسلام آباد میں ’ ڈیرے ‘‘پر ہوئی جہاں وہ اپنے احباب سے ملاقاتیں کرتے ہیں اس نشست میں سینئر ترین صحافی سعود ساحر اور ڈاکٹر ناصر جمال کا اضافہ ہوا جنہوں چوہدری نثار علی خان سے پوچھ ہی لیا ان کے میاں نواز شریف سے راستے کیوں جدا ہوئے ہیں تو چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ یہ ایک طویل داستان ہے تاہم انہوں اختصار سے ان تمام ایشوز پر روشنی ڈالی جو ان کے اور میاں نواز شریف کے درمیان ’’فاصلے ‘‘ پیدا کرنے کا باعث بنے ۔ میں نے یہی سوال میاں نواز شریف سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران کیا لیکن انہوں نے اس بارے میں پھر کسی وقت بات کرنے کا وعدہ کر کے ٹال دیا ۔ دونوں محافل کا موضوع گفتگو پاکستان ، حکومت ،نواز شریف ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی تھی ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ’’گوشہ نشین‘‘ ہونے کے باوجود وہ پاکستان کے حالات سے کس قدرباخبر سیاست دان ہیں ۔ انہیں اس بات کا گلہ ہے کہ ’’انقلابی ‘‘ میاں نواز شریف کو بند گلی میں لے گئے ہیں میرا ’’جرم ‘‘ یہ ہے کہ میں ان کو اس ’’بند گلی‘‘ کی طرف جانے سے روکتا رہا ۔ کاش ! عام انتخابات سے قبل میرے نکتہ نظر کو قبول کر لیا جاتا آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی اور نواز شریف بھی جیل میں نہ ہوتے ۔ میں نے مسلم لیگ (ن) کو نہیں چھوڑا بلکہ مجھ سے مسلم لیگ (ن) کی شناخت چھینی گئی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کرمیرے خلاف امیدوار کھڑے کئے گئے جن کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں ۔میں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا حیران کن بات یہ ہے کہ صوبائی نشست پر 37ہزار اکثریت سے جیتا ہوں جب کہ اس حلقہ کی قومی اسمبلی کی نشست پر مجھے ’’ ہر وا‘‘ دیا گیا میری’’ انجیئرڈ ’’ شکست سے جلد پردہ اٹھے گا ۔ مجھے مختلف حلقوں سے انتخاب لڑنے کی پیشکشیں کی گئیں لیکن میں مانگے تانگے کی نشست پر انتخاب لڑتا ہوں اور نہ ہی دوسرے کا شکار کھاتاہوں ‘‘ ۔چوہدری نثار علی خان سے کم و بیش 34،35سال سے دوستی ہے ۔’’ دوستی اور دشمنی ‘‘ نبھانا کوئی ان سے سیکھے ۔ وہ دوست کے ساتھ آخری حد تک دوستی نبھاتے جب کہ دشمنی قبر تک قائم رکھتے ہیں عام طور چکری کے اس’’ راجپوت‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ بڑا ’’انا‘‘ پسند ہے یہ انا پسندی ہی ہے کہ نواز شریف کی محفل میں نہ بلائے جانے کے بعد پھر ان کی محفل کا رخ کیا اور پھر منت سماجت کے بعد اس دربار پر حاضری نہ دی جہاں ان کی بے توقیری کی گئی ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف کے بارے میں کوئی گفتگوکرتے ہوئے ان کی عزت و تکریم کا پورا خیال رکھتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ان پر پاکستان تحریک انصاف ’’جائن ‘‘کرنے کے لئے بڑا دبائو تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر’’ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جب پی ٹی آئی کے سٹیج پر میاں نواز شریف کے خلاف بات ہو رہی ہو تو پھر میں وہاں کیسے لگتا ؟‘‘ چوہدری نثار علی خان نے پاکستان تحریک انصاف کی’’ خیرات‘‘ میں دی ہوئی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے جب میں نے ایک باخبر شخص سے ان کی شکست کی وجہ دریافت کی تو اس نے یہ کہہ کر کہ’’ وہ کوئی معاملہ طے کرنے کے لئے تیار نہیں تھے‘‘ بات ختم کر دی ۔ جب چوہدری نثار علی خان سے ان کے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں یہ کہہ کر کہ ’’کسی ا لہامی کتاب میں نہیں لکھا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کو ضرور جائن کروں میں آزاد حیثیت سے میدان سیاست میں زندہ رہوں گا وزارت میری کمزوری نہیں کئی بار وزارت عظمیٰ مجھے طشتری میں پیش کی گئی لیکن میں نے وزارت عظمیٰ پر اپنی پارٹی کی وفاداری کو ترجیح دی ۔ چوہدری نثار علی خان پر امید ہیں جلد کوئی راستہ نکلے گا لیکن وہ اس بارے میں خاصے پریشان ہیں کہ ملک بند گلی میں جا رہا ہے ؟ حکومت اپنی غلطیوں کی وجہ سے بند گلی میں داخل ہو گئی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے غلط اقدامات سے اپنے آپ کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے ۔ ایسے حالات سے ملک کو نکالنے کے لئے تمام سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا ملک جس تیزی سے ملک معاشی طور تباہی کی طرف جا رہا ہے اس سے بچنے کے لئے ملک کو معاشی استحکام دلانے کے لئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی ضرورت ہے ۔
چوہدری نثار علی خان کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا جو دیوار کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں میں نے ان کو ملک کے بارے میں انتہائی فکر مند پایا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں بند گلی سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔چوہدری نثار علی خان بہت کم سیاسی بات کرتے ہیں انہیں بلا وجہ سیاسی گفتگو کرنے کی بیماری لاحق نہیں یہی وجہ ہے ان سے انٹرویو لینے کے خواہش مند صحافیو ں کی طویل فہرست ہے جو مہینوں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے عام انتخابات کے بعد جو انٹرویو دئیے ہیں ان میں حکمرانوں اور اپوزیشن کے لئے ایک پیغام تھا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ان کے دوستوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ’’فاصلے ‘‘ کم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن کسی لیڈر میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس بارے میں میاں نواز شریف سے بات کرے اسی طرح چوہدری نثار علی خان تک مسلم لیگی رہنمائوں کی بھی رسائی نہیں وہ جن دو چار رہنمائوں کو ملاقات کے لئے وقت دیتے ہیں لیکن وہ انہیں مسلم لیگ (ن) میں ’’ واپسی ‘‘ پر آمادہ نہیں کر سکے اگر آج چوہدری نثار علی خان پاکستان مسلم لیگ میں ہوتے تو وہ پارٹی میں قیادت کا خلاء پر کر سکتے تھے لیکن وہ اس جماعت کی دوبارہ قیادت کرنے کے لئے تیار نہیں جس کا انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا یہ بھی حقیقت ہے دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت بھی ان کو قبول کرنے کے لئے پرجوش نظر نہیں آتی ۔یہی وجہ ہے بات آگے نہیں بڑھ پائی ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے سب ہی تماشا دیکھ رہے ہیں اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو کا کام جاری ہے اس وقت ’’ناراض ‘‘ مسلم لیگیوں کو پارٹی میں واپس لانے کی ضروت ہے کبھی چوہدری نثار علی خان کے خلاف یہ پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں ’’فارورڈ بلاک‘‘ بنا رہے ہیں جب کہ مجھے ذاتی طور علم ہے انہوں نے رابطہ کرنے والے مسلم لیگی رہنمائوں کو اپنی پارٹی سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے بلکہ وہ فارورڈ بلاک کی بات کرنے والوں سے ملاقات کرنے سے گریز کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہونے کی وجہ سے’’ فارورڈ بلاک‘‘ بن نہیں پایا ۔ چوہدری نثار علی خان نے جس سیاسی قافلے سے منہ موڑ لیا ہے وہ اس میں توڑ پھوڑ کرنے کے لئے کسی ہاتھ میں استعمال نہیں ہونا چاہتے اس وقت میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ان کے اور پرانے ساتھیوں کے درمیان فاصلے ختم کرنے کی ضرورت ہے چوہدری نثار علی خان جیسے جہاں دیدہ سیاست دان ہی میاں نواز شریف کی رہائی اور مسلم لیگ (ن)کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں ۔