پانی ٹیکس نہ لگانے پر چیف جسٹس برہم‘ پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کی رپورٹ ایک ماہ میں طلب
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ این این آئی/آئی این پی/صباح نیوز)وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے متحدہ عرب امارات میں مزید 96 پاکستانیوں کی جائیدادوں کا سراغ لگالیا۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکاو¿نٹس اور جائیدادوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر آڈٹ اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ ایف آئی اے نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات میں مزید 96 پاکستانیوں کی جائیدادوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق یو اے ای میں جائیدادیں رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد 1211 ہوگئی ہے اور ان افراد کی متحدہ عرب امارات میں 2154 جائیدادیں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیاکہ مزید 341 لوگوں کو نوٹسز جاری کیے گئے ہیں، جائیداد رکھنے والے 61 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی جبکہ ایک شخص مفرور، 5 مرحوم ہیں اور 10 ایف آئی اے سے تعاون نہیں کررہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق 97 افراد نے یو اے ای میں جائیداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور 167 افراد کے خلاف انکوائری بند کردی گئی ہے، 79 افراد نے ایف بی آر کے پاس اپنے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں۔ مزید برآں چیف جسٹس ثاقب نثار نے غیرملکی اثاثہ جات کیس کی سماعت کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاﺅنٹس اور جائیدادوں کی ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ ایف بی آر میں پیش نہیں ہوئے ان کی جائیدادیں ضبط کر لیں، جو لوگ غیر ملکی جائیداد کو تسلیم کر چکے ہیں، وہ جرمانہ ادا کریں تاکہ پاکستان کی حالت بہتر ہو، عدالت نوٹس نہ لیتی تو ایف بی آر آج بھی سویا رہتا۔ منگل کو 3رکنی بینچ نے غیرملکی اثاثہ اور بینک اکاﺅنٹس کیس کی سماعت کی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے رکن نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے 895 لوگوں کا ڈیٹا فراہم کیا تھا، جن کی دبئی میں 1365 جائیدادیں تھی۔ اب تک صرف 27 لوگوں نے ادائیگیاں کی ہیں اور ان سے 270 ملین سے زائد کی ریکوریاں ہوچکی ہیں جبکہ 768 ملین کی مزید ریکوریاں ہوں گی۔ اس طرح مجموعی طور پر ایک ارب سے زائد کی ریکوریاں ہوں گی۔ 116 افراد نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے 38 ارب کی جائیدادیں ظاہر کیں۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی کے استعمال کے کیس میں صوبوں اور وفاق کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس مسترد کر کرتے ہوئے سفارشات پر شق وار جواب طلب کرلیا اور کہا کہ تمام صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں۔ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے بار بار کہا ہے کہ پانی سے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ میں زیر زمین پانی 12 سو فٹ پر چلا گیا ہے اور گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو رہا، پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا، سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، نہ آپ لوگوں کی نیت ہے نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی تو اس موقع پر زیر زمین پانی کے استعمال پر صوبوں کی جانب سے ٹیکس لگانے میں پیشرفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے پانی سے متعلق صوبوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے بار بار کہا ہے کہ پانی سے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا، سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، نہ آپ لوگوں کی نیت ہے نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا منرل واٹر کمپنیاں پانی استعمال کر رہی ہیں، بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا میکینزم بنایا ہے۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلی اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے جب کہ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی قیمت اور استعمال سے متعلق رپورٹ دی ہے جس میں چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بوتل کے پانی کے علاوہ صنعتوں میں پانی کے استعمال کی قیمت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا صنعتیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں، لاہور ہائیکورٹ کے جج کی اچھی تجویز ہے کہ مساجد میں وضو کا استعمال شدہ پانی دیگر کاموں میں استعمال کیا جائے۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے بڑھتی آبادی کیس میں حکومت سے ہر 3 ماہ بعد ٹاسک فورس کی سفارشات پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کرلی، آبادی کنٹرول کے معاملے پر فیصلہ آج منگل کو سنایا جائے گا، جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ٹاسک فورس کی سفارشات کو حکومت نے تسلیم کیا تھا، حکومت نے ٹاسک فورس کی رپورٹ پر عمل نہ کیا تو تباہی ہو گی، ایک وقت آئے گا جب وسائل اور طلب میں خلا کو پر کرنا مشکل ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ نے آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کر لی۔ پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ وزیر توانائی عمر ایوب عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمر ایوب صاحب ادائیگیوں کا معاملہ دیکھا ہے۔پنجاب حکومت کے نمائندہ آبپاشی نے عدالت کا آگاہ کیا کہ صوبائی حکومت نے 38میں سے 31تجاویز منظور کی ہیں، سیمینار کی بہت ساتی سفارشات پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور پنجاب واٹر پالیسی بنا دی گئی ہے۔جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ لیکن حکومت نے واٹر پالیسی کو عدالت میں جمع نہیں کرایا، پنجاب حکومت نے منصوبہ بہت اعلی بنایا ہے لیکن کاغذوں میں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگوں نے کچھ نہیں کرنا، ہمیں پیاسا مار دینا ہے، پھر میں کہوں گا تو خبر لگ جائے گی کہ حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ صوبائی حکومتیں کچھ کام نہیں کررہیں آپ لوگ صرف وقت گزارنے کا انتظار کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹس مسترد کردیں اور قرار دیا کہ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات پر وفاق اور صوبوں کو عملی اقدامات کا حکم دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے جمع کروائی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سفارشات پر شق وار جواب طلب کرلیا اور کہا کہ تمام صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں۔
سپریم کورٹ/جائیدادیں