• news

جسٹس ثاقب کل ریٹائرڈ ہو جائیں گے‘ عدالتی نظام میں طاقتور کی مداخلت کا تصور ختم کیا

لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) پاکستان کی عدالتی تاریخ میں جوڈیشل ایکٹوازم کے ذریعے پسے ہوئے طبقات کی کی داد رسی، سفارشی کلچر کی مکمل حوصلہ شکنی، طاقتور کو سرعام قانون کے کٹہرے میں لانے اور مساوی انصاف نافذ کرنے جیسے اقدامات کا قابل تقلید ورثہ چھوڑ کر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کل17جنوری کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ بحیثیت چیف جسٹس دو سال کے عرصہ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بنیادی حقوق کی درخواستوں اور85فیصد سے زائد مقدمات کو نمٹانے کا اقدام پاکستانی تاریخ میں عدلیہ کے ماتھے پر قابل فخر جھومر بن کر چمکتا رہے گا۔ پہلی بار سپریم کورٹ کراچی اور کوئٹہ رجسٹری میں زیر التوا فوجداری اپیلیں نمٹا دی گئیں۔ چیف جسٹس نے سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تیسری دنیا کے ملک میں کمزور سمجھی جانے والی عدلیہ میں تین چیزوں کا عملی تاثر قائم کر کے دکھایا۔ ایک یہ کہ جج کتنا کام کر سکتا ہے۔ دو سالوں تک ہفتہ وار اور عام تعطیلات کے علاوہ صبح، دوپہر سہ پہر، شام حتی کہ رات کو بھی ملک کے طول و عرض میں انصاف کی فوری فراہمی کی منفرد مثال قائم کی۔ چیف جسٹس نے پہلی بار قائد اعظم کی پیدائش کے روز 25دسمبر کو بھی مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم قائد اعظم کا یوم پیدائش کام کر کے منا رہے ہیں۔ دوسرا تاثر یہ قائم کیا کہ قاضی اپنے عوام کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں میں انصاف کی امید زندہ رکھتا ہے۔ تیسرا یہ کہ ایک جج کو کوئی مافیا خوف زدہ نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ عشروں تک خوف کی علامت رہنے والے کردار بھی جسٹس ثاقب نثار کی عدالت سے سرزنش کروا کر گئے۔ انہوں نے پاکستان کے عدالتی نظام میں طاقتور طبقوں کی مداخلت کے تصور کو ختم کیا۔ اگرچہ جوڈیشل ایکٹوازم کی ابتدا 1998میں اس وقت کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ نے کی۔ پھر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی جوڈیشل ایکٹوازم کے تحت از خود نوٹسز لئے۔ مگر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بنیادی حقوق سے متعلق عوام کی داد رسی کےلئے اس عدالتی طریقہ کار کو عروج بخشا۔ ڈیمز کی تعمیر، زیر زمین پانی کی قیمتیں مقرر کرنا، تعلیم، صحت، پانی، حصول انصاف، ناجائز قبضوں، تجاوزات، عوامی منصوبوں میں مبینہ کرپشن، نعلین مبارک کی چوری اور خلاف قانون تعیناتیوں پر لئے گئے از خود نوٹسز کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے ایسے مقدمات خود سننے کو ترجیح دی جس میں ملک کی طاقتور شخصیات ملوث تھیں۔ اہم عدالتی معاملات اور مقدمات کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کے باوجود چیف جسٹس عدلیہ کی غیر جانداری قائم رکھنے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ عدلیہ میں احتساب کا عمل تیز کرتے ہوئے ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میںسال ہا سال سے زیر التواءریفرنسز نمٹائے۔ اب ان میں سے صرف دو ریفرنس زیر التواءہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے وکلاءکے منفی رویوں کا بھی مختلف معاملات میں نہ صرف نوٹس لیا بلکہ وکلاءقیادت کو خود احتسابی کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس ریٹائر

ای پیپر-دی نیشن