جناح ہسپتال کراچی کا انتظام وفاق کے پاس رہیگا‘ سپریم کورٹ نے 18 ویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کر دی
اسلام آباد+کراچی (نوائے وقت نیوز+ہیلتھ رپورٹر+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم سے متعلق سندھ حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جناح ہسپتال کراچی کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہی رکھنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت نے عدالت میں 18 ویں ترمیم کے حوالے سے صوبائی اختیارات سے متعلق درخواست دائر کر رکھی تھی۔ چیف جسٹس نے اٹھارہویں ترمیم سے متعلق مقدمے کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جناح ہسپتال کراچی کا کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گا۔ دریں اثناءچیف جسٹس نے کہا ہے کہ لعنت ہے ایسے لوگوں پر جو جعلی ادویات بناتے ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ڈریپ کے نمائندے نے قیمتوں میں اضافے کی رپورٹ پیش کر دی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قیمتوں میں اضافے کی رپورٹ دیکھ لی ہے۔ ڈریپ کو جعلی ادویات کے خلاف ایکشن کے لیے کیا تحفظ چاہیے؟ ڈریپ حکام نے عدالت کو بتایا کہ ایورسٹ کمپنی کے خلاف 73 ایف آئی آرز کا اندراج ہو چکا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جعلی ادویات سے گندا بیوپار نہیں ہو سکتا۔ نیب اور ایف آئی اے ڈریپ کے خلاف براہ راست ایکشن نہیں لیں گے۔ تحقیقاتی ایجنسی سربراہان ڈریپ کے خلاف شکایت کا جائزہ لیں۔ تحقیقاتی ایجنسی اٹارنی جنرل کی مشاورت سے ایکشن لیں، ادویات ناسور ہیں۔ سپریم کورٹ نے عیسائی برادری کی شادیوں کو قانون کے مطابق رجسٹر کرنے کا حکم د یتے ہوئے کہا ہے کہ یونین کونسلز قانون کے مطابق عیسائیوں کی شادیاں رجسٹرڈ اور نادرا عیسائی برادری کو میرج سرٹیفکیٹ جاری کرے۔ حکومت پنجاب اس حوالے سے مزید قانون سازی بھی کرے۔ سپریم کورٹ نے بڑھتی آلودگی سے متعلق کیس نمٹا دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ماحولیات میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن اس معاملے پر فیصلہ لکھیں گے۔ سپریم کورٹ نے اورنج لائن منصوبہ از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے ریمارکس دئیے ایل ڈی اے سٹی کی بربادی مفادات کے ٹکرا¶ کا نتیجہ ہے۔ تعمیراتی کمپنیوں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور ایک ارب روپے کی بنک گارنٹی جمع کروا دی۔ عدالت نے ایل ڈی اے کی جانب سے دیے گئے چالیس اور ساٹھ کروڑ روپے کے چیک تعمیراتی کمپنیوں کے حوالے کردیئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایل ڈی اے کے بورڈ میں پراپرٹی ڈیلرز کو کیوں ڈالا گیا؟، یہ تو سیدھا سیدھا مفادات کا ٹکرا¶ ہے۔ ایل ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ بورڈ میں پراپرٹی ڈیلرز کی شمولیت کا علم نہیں، بلکہ ہاﺅسنگ سوسائٹیز کیساتھ کام کرنے والوں کو بورڈ ممبر بنایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا مفادات کے ٹکراﺅ کا کیس آیا تو جائزہ لیں گے۔ سپریم کورٹ نے اورنج لائن منصوبہ از خود نوٹس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کے بارے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ٹھیکیداروں اور دیگر حکام کے جوابات کا جائزہ لے کر دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ ٹھیکیدار کے وکیل نے مو¿قف اپنایا کہ ٹھیکیدار اپنے ایک ارب 20 کروڑ روپے واپس لینا چاہتا ہے، میرے موکل کو حیرانی ہے کہ کیسے ٹھیکے کو زائد نرخ قرار دیا گیا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس پراجیکٹ کو مکمل ہونے دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں تو کوئی امر مانع نہیں، کیا آپ نے اینٹی کرپشن کی رپورٹ پر جواب جمع کروا دیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ یہ رپورٹ بورڈ کے چیئرمین اقبال حمید الرحمٰن کو بھیج دیں، یہ ساری رپورٹ غلط معلومات پر تیار کی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سب عدالت کو تعین کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی اینٹی کرپشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر پرچے بنتے ہیں تو درج کریں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ پرچے سے کام رک جائے گا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ کوئی کام نہیں رکے گا۔ اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب میں پی کے ایل آئی گیا ہوں وہاں کام کا معیار بہت کم ہے، کوئی کام سٹیٹ آف دی آرٹ نہیں ہوا جس کے نعرے لگائے گئے، 22 ارب روپے خرچ ہوگئے یہ کم رقم نہیں، اتنی کوشش کے بعد ڈیم فنڈ کے لیے صرف 9 ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔ سماعت میں منصوبے کے آرکیٹکٹ کی جانب سے پیش آنے والے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منصوبے کے آرکیٹکٹ پر الزام لگا کہ ایک ہزار بیڈ کا ہسپتال تھا 400 بیڈ بنا رہے ہیں، ہسپتال ہم نے تو نہیں حکومت نے بنانا ہے۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جے آئی ٹی رپورٹ صرف ابتدائی رپورٹ ہے، ابھی تفتیش اور ٹرائل ہونا ہے۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) حسین اصغر کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حسین اصغر اس معاملے پر آپ نے کیا کرنا ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کا م¶قف لیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مجھے اپنے افسران پر پورا اعتبار ہے۔ پاکپتن کیس میں اینٹی کرپشن نے رپورٹ دی ہے، یہ ہمارے ہیرے ہیں۔سپریم کورٹ نے فاٹا کے عبوری ریگولیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے خیبر پی کے حکومت کو 6 ماہ میں مکمل نظام بنانے کی ہدایت کر دی۔ صوبائی حکومت کو انفراسٹرکچر اور دیگر نظام قائم کرنے کیلئے مہلت دی گئی ہے۔
چیف جسٹس