تو تیر آزما ، ہم جگر آزمائیں
لڑائی ہے تو پھر لڑائی ہے۔ ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں ۔ مرنے کے لئے تیار ہیں۔ مرشد مجید نظامی کی حرمت پر قربان ہونے کو تیار ہیں۔ حامد میر نوجوان صحافیوں کا ہیرو ہے۔ وہ ایک بہادر باپ کا بیٹا ہے اور مزاحمت کرنا اس کی گھٹی میں شامل ہے۔ حامد میر میرا بھی ہیرو ہے۔ اس نے تین روز قبل لکھا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔یہ کالم اس نے نوجوان صحافیوں کی ہمت بڑھانے کے لئے لکھا۔یہ کالم پڑھ کر میرے خون نے بھی جوش مارا۔آج صحافت کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر صحافت پر یہ کڑوا وقت پہلی بار نہیں آیا ۔ بار بارا ٓیا۔ وقت گزر جاتا ہے ۔ جیسے تیسے بھی ہو ،گزر جاتا ہے۔ ایوب خان کے کالے قوانین صحافیوں کا حوصلہ نہیں توڑ سکے۔ اس وقت ایوب خان کے وزیر اطلاعات احمد سعید کرمانی ا ور چٹان کے شورش کاشمیری کے درمیان یدھ پڑا۔ شورش سے کو ن ٹکرا سکتا ہے۔ وہی ٹکرا سکتا ہے جس نے کبھی ہمالیہ سے ٹکر لی ہو مگر ہمارے کتنے حکمران ہیں جنہوں نے ہمالیہ دیکھا بھی ہو۔ ایوب خان نے حمید نظامی کا ناطقہ بند کرنے کی ٹھانی اور ان کا جینا دوبھر بنا دیا، کہتے ہیں ایوب دور میں ملک نے بڑی ترقی کی اور ہماری منصوبہ بندی کو دیکھ کر سنگا پور، ہانگ کانگ، ملائیشیا اور جنوبی کوریا ایشین ٹائیگر بن گئے۔ مگرا ن ملکوںنے ایوب سے فاشزم کا سبق کیوں نہیں لیا۔ ایسا فاشزم جس میں حمید نظامی کا سانس گھٹ کر رہ گیا،ایوب خان کی خوشنودی کے لئے پاکستان ٹائمز کے جعلی ایڈیشن چھاپ کر ایوان صدر پہنچائے جاتے تھے۔یحییٰ خان اور ضیا الحق نے ایوب کی فسطائیت کے ریکارڈ بھی مات کر دیئے۔ ایک نے ملک کو دو لخت کر دیا ۔ دوسرے نے سچ بولنے والوں پر کوڑے برسائے۔ ضیا الحق کے دور میں جبر کی انتہا ہو گئی۔ جس اخبار نویس نے حکومت کی منشا کے خلاف خبر لگائی، اسے اخبارات سے اس طرح نکلو ا دیا جاتاتھا کہ انکی تصویر اخبار کے فرنٹ صفحہ پر چھاپی جاتی جیسے اشتہاری غنڈوں کا اشتہار شائع کیا جاتا ہے، اسی دور میں ہم نے سنسر شپ بھی بھگتا، اخبار، رسالے یا کتاب کی کاپی پریس جانے سے پہلے محکمہ اطلاعات سے اسے سنسر کروایا جاتا،۔ حد تو یہ ہے کہ میں نے پروین شاکر کی شہرہ آفاق کتاب صد برگ چھاپی تو ا سکو بھی پہلے سنسر کروانا پڑا، میرے کاغذوں کے ڈھیر سے یہ سنسر شدہ کتاب کی کاپیاں نکل آئیں تو لندن میوزیم کی زینت بنوا دوں گا۔ ایک بار خان گڑھ میں نظر بند نوابزادہ نصراللہ کا انٹریو کر بیٹھا تو جیل توڑنے کے جرم میں میرے خلاف پرچہ درج ہو گیا۔ مگر اب وہ دور آیا ہے کہ لال مسجد کے مولانا صاحب کا گھونگھٹ اٹھا کر پی ٹی وی پر انٹرویو نشر کیا گیا۔ وہ بھی تو ایک قیدی ہی تھا اور دہشت گردی کامجرم۔ نوابزادہ تو دہشت گرد نہ تھے ۔ اور پچھلے ہی دنوں احسان اللہ احسان کو جھاڑ پھونک کر واسکٹ پہنا کر ٹی وی انٹریو کرایا گیا۔ ان کے انٹریوز پر کسی نے جیل توڑنے کا الزام نہیں لگایا۔ مجھے یادا ٓیا اسامہ بن لادن کاانٹرویو حامد میر نے افغانستان کے کسی نامعلوم مقام پر اس وقت جا کر کیا جب امریکہ اورا سامہ کے درمیان گھمسان کا رن برپا تھا۔صحافی ہر صورت حال سے گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں حامد میر نے تو گولیاں بھی کھائیں۔ایک زمانے میں اخبارات کو مالی بحران کا شکار کیا جاتا تھا تو اخبار نویس ا سی اخبار کے دفتر کے باہرپکوڑوں کی ریڑھی لگا لیتے تھے۔میں پھر حامد میر ہی کا ذکر کروں گا ۔ مشرف نے ایمر جنسی پلس لگائی اور ٹی وی چینل بند کر دیے تو حامد میر نے اپنا پروگرام پارلیمٹ کی سیڑھیوں کے سامنے کرنا شروع کر دیا۔ میںنے اس ایمر جنسی کے خلاف کالم لکھا تو لگتا ہے آج پھر کسی کو پھر کسی کاا متحان مقصود ہے۔
میڈیا پر کڑا وقت آ یا ہے۔ الیکشن سے پہلے ہر کسی کو اندازہ تھا کہ ایک قیامت برپا ہونے والی ہے اور ہم ا س قیامت سے گزر رہے ہیں۔ ہماری صفوں کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پکڑو۔ دوڑو، جانے نہ پائے۔ نوائے وقت پر خاص مہربانوں کی نظر ہے کہ یہ ایک نظریئے کا علم بردار ہے ۔ اس نظریئے کومٹائے بغیر بعض عزائم پورے نہیں ہو سکتے۔ تو آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مجید نظامی نے تو نظریہ پاکستان کا پرچار ہی نہیں کیا، ا س لئے ان کے ادارے پر شب خون مار کر اسے کسی اور کے سفاک ہاتھوں میں دے دیا جائے۔نوائے وقت کی یہ بھی پہلی آزمائش نہیں۔ نوائے و قت پر ا س سے بھی برا وقت آتا رہا اور حمید نظامی اور مجید نظامی نے اسے بہادری اور حوصلے سے بھگتا۔ آج ان کی مسند پر محترمہ رمیزہ مجید نظامی فائز ہیں۔ حاسدوں اور سازشیوں کا خیال ہے کہ وہ انہیں ڈرانے دھمکانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر میں جانتاہوں کہ جب محترمہ رمیزہ چھوٹی بچی تھی تو اپنے والد گرامی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے بیٹھتی تھیں اورا ن سے کسب فیض کرتی تھیں۔ یہ کسی کی بھول ہے کہ وہ محترمہ کو ڈرا دھمکا سکتا ہے۔ بھلا مجید نظامی جیسے مرشد کی تربیت یافتہ کیسے حوصلہ ہار سکتی ہے۔ آج اردو اخبار کے کسی مالک اور ایڈیٹر کے پاس وہ تعلیم نہیں جو میڈم رمیزہ کو حاصل ہے ۔ انہوںنے لندن سے مزید تعلیم پائی اور جناب مجید نظامی نے مجھے فخر سے بتایا کہ اب انہیں اخبارا ور ادارے کے بارے میں کوئی فکر ، کوئی پریشانی لاحق نہیں۔میں حاسدوں کو بتاتا چلوں کہ نوائے وقت میں میں محمد منیر، اسلم شفیع، کرم علی سبھی کا مجید نظامی سے عشق جوانوں جیساا ور لازوال ہے ۔نوائے وقت کے ایڈیٹوریل ڈیسک کی سربراہی سعید آسی کے ہاتھ میں ہے اور جاوید صدیق نواز رضا،دلاور چودھری ، امیر محمد خاں(جدہ) اور خالد بہزاد ہاشمی مرشد نظامی کے پروانے ہیں۔ان میں سے ہرکوئی اپنے شعبے کا جرنیل ہے اور کس کی ہمت ہے کہ ان سے ٹکرا سکے ۔ اجمل نیازی ا ور میں نوائے وقت میں آتے جاتے رہے مگر سچی بات ہے کہ ہم اپنا دل محترم مجید نظامی کو دے چکے تھے۔اور میاں آفتاب فرخ کے بارے میں کیا کہوں ، ان کی صورت میں ہمیں مجید نظامی نظر آتے ہیں۔ وہ نوائے وقت کے قلعہ دار ہیں۔
مجید نظامی کی اس سپاہ سے ٹکرانے کی ہمت کس میں ہے،۔ جو بھی غلطی کرے گا پاش پاش ہو جائے گا۔جس طرح پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اسے زیر نہیں کیا جا سکتا،ا سی طرح نوائے وقت کی سپاہ کے ایٹمی حوصلوں اور جذبوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔
کچھ کفن چور ہیں جو سرگرم عمل ہیں۔ کچھ حاسدین ہیں جو حسد کی آگ میں ہی جل کر رہ جائیں گے ، کچھ سازشی ہیں جن کی تدبیریں ان کو الٹی پڑ جائیں گی۔پریس ٹرسٹ کے اخباروں کو کس نے کھڑا کیا اور کس کس نے انہیں اچکنے کی ناکام کوشش نہیں کی۔نوائے وقت مجید نظامی اور حمید نظامی کی میراث ہے۔ یہ تحریک پاکستان کے شہیدوں کی میراث ہے۔یہ ادارہ عشق رسول ﷺ اور توحید ربانی سے سرشار ہے اور اس کے لئے وادی بطحا سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ یہ ادارہ پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ عمران خان کابھی نعرہ ہے کہ و ہ پاکستان کو مدینہ کی فلاحی ریاست کا حقیقی پرتو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ایسے حکمران سے یہ امید رکھنا کہ وہ اپنے ہی دست بازو پر وار کرے گا، ایں خیال است و محال است و جنوں است۔
وزیر اعظم کو کفن چوروں،جگوں اور اٹھائی گیروں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
میں حامد میر اور دیگر صحافی دوستوںکو یقین دلاتا ہوں کہ آج ہمیں غزوہ احد درپیش ہے۔ اس کے بعد فتح مکہ کی بشارت ہی بشارت ہے۔صحافت کو زیر کرنے کا خیال کسی دیوانے کو بھی نہیں آ سکے گا۔