ہسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی غیر آئینی‘ 18 ویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے شیخ زید ہسپتال وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم کے حوالے سے فیصلے میں کہاکہ ہسپتال آئینی اور قانونی طریقہ کو مدنظر رکھے بغیر صوبوں کو منقل کئے گئے‘ 18ویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی‘ وفاقی حکومت ہسپتال بنانے اور چلانے کا اختیار رکھتی ہے‘ 90روز کے اندر ہسپتال وفاق کو منتقل کئے جائیں۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اٹھارویں ترمیم میں ہسپتالوں کے سٹرکچر سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔ بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت صوبوں میں ہسپتالوں کے منصوبے شروع کر سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کے صوبوں میں ہسپتالوں پر صوبائی ریگولیشن کا اطلاق ہو گا۔ شیخ زید ہسپتال کسی قانونی اقدام کے بغیر صوبے کے حوالے کیا۔ وفاقی حکومت ہسپتال بنانے و چلانے کا اختیار رکھتی ہے یہ حق زندگی کا معاملہ ہے جو کسی کا بھی بنیادی حق ہے۔ کراچی کے تین ہسپتال اور میوزیم بھی غیر قانونی طور پر صوبائی حکومتوں کو دیئے گئے۔جسٹس مقبول باقر نے اٹھارویں ترمیم کیس میں اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ ہماری تاریخ میں صحت کا شعبہ ہمیشہ صوبوں کے پاس رہا ہے، صحت کا شعبہ کبھی بھی وفاق کے پاس نہیں صحت سہولت کا کوئی بھی مرکز وفاقی حکومت کے زیر انتظام نہیں ہو سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے تحریر کردہ فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا،پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے، ہمارے آئین میں کچھ اختیارات وفاقی اور کچھ صوبائی ہے پاس ہیں۔ وفاقی نظام کے تحت کچھ اختیارات مرکز اور کچھ صوبوں کے پاس ہوتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم میں بھی صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے جووفاقی مقننہ کے پاس صحت کے بارے میں قانون سازی کا اختیار نہیں، صحت کا شعبہ اس فہرست پہ نہیں جس پر وفاق قانون سازی کر سکے۔ اٹھارویں ترمیم کی انٹری 37 میں تمام حکومتی اثاثہ جات کے مقاصد واضح کیے گئے ہیں، ہمارا آئین ریاست کے ہر ادارے کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ ہمیں صوبائی خود مختاری کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، صوبائی خود مختاری کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے 5 ہزار سے زائد فیسیں وصول کرنے والے نجی سکولوں کی فیسوں میں 20 فیصد کمی کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 20 فیصد کمی کے حکم کا اطلاق ملک بھر کے تمام ان سکولوں پر ہوگا جو 5 ہزار سے زائد فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ تحریری فیصلے کے مطابق 5 ہزار سے کم فیس وصول کرنے والے نجی تعلیمی ادارے 20 فیصد کمی سے مستثنیٰ ہوں گے۔ فیصلے میں ہدایت کی ہے کہ طلبہ اور والدین کم فیس جمع کرائیں اور والدین سکول کی فیس مقررہ وقت تک ادا کریں۔ فیسوں پر کمی سے سکالرشپس اور سکول کی سہولیات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، سکول مالکان اساتذہ کی تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ ملک میں قانون اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ نجی سکولوں نے عدالتی حکم کے بارے میں والدین کو تضحیک آمیز خطوط لکھے، جن سکولوں نے تضحیک آمیز خطوط لکھے ان کو نوٹس جاری کرتے ہیں، وہ سکول وضاحت کریں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ایف آئی اے سکولوں کے قبضے میں لئے گئے ریکارڈ کاپی کرکے واپس کرے۔ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی عدالتیں آئین پاکستان کی تابع ہیں جبکہ سپریم کورٹ کا دائرہ کار بھی گلگت بلتستان تک نافذالعمل ہے۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، جس کے تحت کشمیر پر رائے شماری تک گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔پاکستان اور بھارت اپنے زیر انتظام علاقوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے پابند ہیں، عدالت نے مثال کے لیے 1999 کے الجہاد کیس کا حوالہ دیا جس میں سپریم کورٹ گلگت بلتستان کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا حکم دے چکی تھی۔ فیصلے میں عدالت نے قرار دیا سپریم کورٹ کے اختیارات گلگت بلتستان میں بھی نافذ العمل ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور گلگت بلتستان کا کوئی بھی قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوسکتا ہے۔ گلگت بلتستان کی عدالتیں اور سپریم ایپلٹ کورٹ کا اختیار صرف گلگت بلتستان تک محدود ہے جبکہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان آرڈیننس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کی بھی تابع ہیں۔ چنانچہ گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار نہیں دے سکتی البتہ یہ عدالتیں گلگت بلتستان کونسل کی قانون سازی پر نظر ثانی کرسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ فیصلے میں بتایا گیا سپریم کورٹ نے صدارتی آرڈیننس میں ترامیم تجویز کی ہیں اور قرار دیا کہ صدارتی آرڈیننس میں صرف آئین کے آرٹیکل 124 میں درج طریقہ کار کے مطابق ہی ترمیم ہو سکتی ہے لہٰذا اگر پارلیمنٹ اس صدارتی حکم میں تبدیلی یا ترمیم کرے تو سپریم کورٹ آئین کے تحت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عدالت نے ہدایت کی وفاق کی سفارش پر صدر پاکستان مجوزہ عدالتی حکم کو نافذ کریں اس کے ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے شہریوں کو مبارکباد دیتے ہوئے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے عوام کے برابر حقوق دے دئیے گئے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ معاملے میں غیر معمولی کام کیا اس لئے سمری جاری کی جارہی ہے۔ گلگت بلتستان میں آرٹیکل 124 کے برعکس کوئی حکم نافذ نہیں ہوسکتا،گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق کوئی شق ختم یا تبدیل نہیں ہو سکتی۔ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں۔ ان علاقوں کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے۔ بھارت اور پاکستان زیر انتظام علاقوں کو حقوق دینے کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ