• news
  • image

فوجی عدالتیں اہم قومی ایشو: سیاست نہ کی جائے!

پیپلزپارٹی نے آصف زرداری کی زیرصدارت گزشتہ روز کراچی میں ہونے والے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کا اعلان کر دیا ۔ دوسری طرف پی پی کی تازہ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) اس سوال پر گومگو کا شکار ہے۔ ایک مضبوط رائے یہ ہے کہ جن غیرمعمولی حالات کا جواز پیش کرتے ہوئے توسیع مانگی گئی تھی‘ اب وہ بدل گئے ہیں۔ دریں اثنا پاک فوج کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ فوجی عدالتیں ہماری خواہش نہیں‘ قومی ضرورت ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ فوجی عدالتوں نے تخریب کاروں پر خوف طاری کیا۔
دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب معصوم بچے‘ معلمات اور عملے کے کچھ افراد شہید ہوئے۔ اس سانحہ نے پوری قوم پر صدمہ اور سکتہ کی سی کیفیت طاری کر دی۔ پوری قوم نے طے کیا کہ دہشت گردوں کیخلاف فوج ہی نہیں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ چنانچہ اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان سمیت متعدد فیصلے ہوئے‘ انکے تحت دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کا ٹرائل کرنے کیلئے دو سال کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ 2016ء میں پارلیمنٹ نے انکی میعاد میں دو سال کی توسیع کر دی اس لئے کہ ابھی دہشت گردی کیخلاف ضرب عضب اور ردالفساد آپریشنوں کے تحت جنگ جاری تھی۔ فوجی عدالتوں کا قیام دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے معروضی حالات میں عمل میں لایا گیا تھا۔ عصبیت کو ایک طرف رکھ کر قومی جذبے سے تجزیہ کیا جائے تو فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کے تدارک میں اہم کردار ادا کیا۔ دہشت گردوںکیخلاف اگر ایک جنگ میدانوں اور پہاڑوں میں لڑی جا رہی تھی تو دوسری ان ملٹری کورٹس میں لڑی گئی۔ 4 سال میں فوجی عدالتوں کے پاس 717 کیس آئے ، 646 کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ 345 مجرموں کو موت کی سزا ہوئی البتہ صرف 56 پھانسی لگے۔ آج ملک میں امن و امان واپس لوٹ رہا ہے۔ فوجی عدالتیں برقرار رکھی جائیں یا نہیں‘ اس کا فیصلہ سول اور عسکری قیادتوں کی باہمی مشاورت سے کیا جائے۔ اس اہم ایشو پر پارلیمنٹمیں ہی بحث کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ پارلیمنٹ سے باہر کسی کو اس ایشو پر اپنی سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن