اتوار ‘ 13؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 20 ؍ جنوری 2019ء
ا رکان پنجاب اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 3 لاکھ ماہانہ اوریگر مراعات میں بھی بھاری اضافے کا مطالبہ
یہ بل پی ٹی آئی کے عوام دوست ارکان نے پیش کیا ہے ۔ حکومت ان کی ہے۔ انہوں نے سوچ لیا ہوگا کہ اب ڈر کاہے کا۔ سو انہوں نے ایسا بل پیش کیا ہے جس کے بارے میں سن کر مہنگائی اور غربت کے مارے عوام کو مرچیں لگ رہی ہونگی۔ اب اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہوتے تو ہم ان سے کہتے کہ وہ ان بلونگڑوں کو عدالت میں بلا کر پوچھیں کہ جناب آپ حضرات کرتے ہی کیا ہیں کہ آپ لوگ 3 لاکھ روپے ماہوار تنخواہ طلب کررہے ہیں۔ آپ لوگ عوامی خدمت کے دعویدار ہیں۔ خیر سے سب ارب پتی ہیں۔ موٹی مالدار آسامیاں ہیں۔ آپ کو تنخواہ کی کیا پڑی۔ دراصل ان ارکان پنجاب اسمبلی کی رال بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں کو دیکھ کر ٹپکی ہے۔ یہ بھی انکے برابر تنخواہیں اور مراعاتیں چاہ رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی عیاشیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہاں کی حکومت اربوں روپے کی اوور ڈرافٹنگ کا شکار ہے مگر ارکان اسمبلی اور وزراء کے اللے تللے ختم نہیں ہورہے۔ کام ایک پیسے کا بھی وہاں کی اسمبلی نہیں کر رہی۔ عوا م کوچھ ماہ میں کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی۔ اب خدانخواستہ پنجاب میں بھی یہی کام نہ شروع ہو جائے۔ کاروبار سیاست میں لاکھ لگا کر کروڑ کمانے کے چکر میں مبتلا یہ لوگ کاروباری سیاستدان ہیں۔ انہیں عوام اور ان کے مسائل سے کیا دلچسپی۔ سب اپنا جیب خرچ اور مال پانی کمانے میں مصروف ان لوگوں کا اصل چہرہ پہلے بلوچستان اور اب پنجاب اسمبلی میں سامنے آرہا ہے۔ کیا خبر سندھ اور خیبر پی کے میں بھی چپکے چپکے یہ کارروائی ڈال چکے ہوں۔
٭٭……٭٭……٭٭
شیخ رشید کا ریلوے سٹیشنوں پر فارمیسی کھولنے کا اعلان
موصوف سے متعلق عوام کا مسئلہ گاڑیوں کی آمدورفت کا نظام الاوقات بہتر بنانا ہے۔ ٹرینوں کی ابتر حالت میں بہتری لانا ہے۔ ریلوے ٹریک کوڈبل کرنا‘ بوسیدہ انجنوں اور ڈبوں کی جگہ بہتر انجن اور بوگیاں لگانا ہے۔ اس طرف تو وزیر صاحب کی توجہ جاتی نہیں‘ لگے ہیں وہ کام کرنے جو کسی اور کے کرنے والے ہیں۔ …ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں‘ وہاں بیمار کو سفر کرنے نہیں دیا جاتا۔ اگر بزرگ اور بیمار سفر کریں بھی تو دوائیوں کی پوٹلی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہاں البتہ وزیر ریلوے نے سٹیشنوں پر بکنے والے ناقص کھانوں اور دیگراشیاء خوردونوش کی حالت دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے تو یہ سو فیصد درست ہے کیونکہ وہ کھانے کھا کر اور مشروبات پی کر تو کوئی بھی کسی وقت بیمار پڑ سکتا ہے۔ اس لئے اسے فوری طورپر ادویات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کوئی صحت مند شخص ریلوے سٹیشنوں پر دستیاب مہنگے داموں ناقص مشروبات اور پانی کو استعمال کرکے صحت مند نہیں رہ سکتا۔ ان کے تو ٹھیکے بھی وہی لوگ لیتے ہیں جو دو نمبر‘ جعلی اور مضر صحت اشیاء فروخت کرکے ڈبل کمانے کا عزم لیکر آتے ہیں۔ زیادہ بہتر تھا شیخ جی ان سٹیشنوں کے دکانداروں‘ ریڑھی والوں پر توجہ دیں۔ یہاں اصل نمبر ایک اشیاء کی فراہمی ممکن بنائیں۔ تو کسی فارمیسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کام وہ کریں جو کرنے والے ہیں۔ ٹرینوں کی سفری سہولتوں میں‘ ڈبوں کی حالت میں‘ ٹائم ٹیبل میں بہتری لائیں‘ ٹریک ڈبل کریں تو مسافروں کو سہولت ہوگی ورنہ خالی خولی فارمیسی کھولنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
بیوی کو ہراساں کرنے پر ڈی آئی جی گلگت بلتستان برطرف‘ 10 لاکھ روپے جرمانہ
امیدہے اب ڈی آئی جی صاحب کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا۔ انہیں اطمینان قلب اور ذہنی سکون حاصل ہوا ہوگا۔ نوکری بھی گئی‘ جرمانہ بھی ہو گیا۔ یوں انہیں روز روز دفتر آنے جانے کی بک بک اور چخ چخ سے بھی نجات مل گئی۔ موصوف پڑھے لکھے شخص ہیں۔ اتنے اعلیٰ عہدے پر فائز بھی مگر ان کے اندر وہ روایتی جاہلیت نجانے کہاں سے در آئی کہ اپنے سے وابستہ کسی انسان کو جو اب ان کی دنیا سے نکل چکا ہے‘ ان کی دسترس سے باہر ہے۔ صرف اس لئے تنگ کرنے پر تلے نظر آتے ہیں کہ ماضی میں اس شخص کا ان سے تعلق تھا۔ یہ بہت کم ظرفی کی بات ہے کہ ایک مرد اپنی سابقہ اہلیہ کو سوشل میڈیا پر تماشہ بنا دے۔ کیا پہلے کم تماشے سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں کہ کسی خاتون کو بھی تماشہ بنا کر اپنی مردانگی دکھائی جائے۔ وہ بھی اس کو جو سابقہ شریک حیات تھی۔ نجانے ہم کیوں اتنے اذیت پسند ہو جاتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ معاشرے میں مثال ہوتے ہیں۔ دوسرے ان سے سبق حاصل کرتے ہیں مگر یہاں تو عدالت نے انہیں سزا سنا کر عبرت کی مثال بنا دیا ہے۔ خدا خیر کرے۔ امید ہے باقی لوگ بھی ایسا کرنے سے پہلے ملازمت سے برخاستگی اور 10 لاکھ جرمانے کی سزا ضرور مدنظر رکھیں گے۔ خواتین کیلئے تو یہ خبر خاصی خوشگوار ہوگی۔ وفاقی محتسب برائے خواتین کی طرف سے سنائے جانے والے اس فیصلے سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ہونگے۔
٭٭……٭٭……٭٭
شہری سوئٹزرلینڈ جیسی سروس مانگتے ہیں مگر سہولیات صومالیہ جیسی ہیں: چیف ٹریفک آفیسر
چیف ٹریفک آفیسر لاہور کیپٹن (ر) لیاقت علی نے اس ایک جملے میں معاشرتی رویوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ جو معاشرے اخلاقیات سے عاری اور قانون شکن ہوتے ہیں‘ وہاں ہر جانب بے ہنگم و بے ترتیب ٹریفک کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں بوریت دور کرنے اور ماحول سے لطف اندوز ہونے کیلئے ڈرائیونگ کی جاتی ہے۔ یہاں ڈرائیونگ کرنا جہنم میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی لائن اور لین کی پابندی کرنا چاہتا ہے تو اسے طرح طرح سے زچ کیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ بھی دوسروں جیسا بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اکثر وارڈن سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں‘ لیکن ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے ’’خصماں نوں کھائو‘‘ اگر کوئی جیالا وارڈن ٹریفک قوانین کی پابندی کرانے پر تل جائے تو وہ چند ہی لمحوں بعد اپنے کھنوں کو ٹکور کرتا نظر آئے گا۔ کبھی کبھی وہ ایسی گاڑی پر بھی ہاتھ ڈال بیٹھتا ہے جسے چلانے والا کسی پولیس آفیسر‘ سیکرٹری‘ وزیر شذیر قسم کی قانون سے بالا مخلوق کا بیٹا‘ بھتیجا‘ بھانجا‘ سالا‘ بہنوئی یا اسی نوعیت کا رشتہ دار نکل آیاتو وہ (وارڈن) وہیں کھڑے کھڑے اپنی پیٹی اتروا یا ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ جب تک معاشرے کے مقتدر اور بالادست طبقے نہیں سدھریں گے‘ یہی رونا رہے گا جس کا چیف ٹریفک آفیسر نے حوالہ دیا ہے۔رہی سہولتوں کی بات تو عام پولیس اہلکار‘ ٹریفک وارڈن یا اعلیٰ افسران وہ سب عوام سے ہر رنگ میں مختلف سہولتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ حکومت علیحدہ ان پر مہربان رہتی ہے۔ ہاں البتہ عوام کیلئے سڑکوں پرسفر کرنا ضرور صومالیہ جیسا خطرناک عمل ضروربن چکا ہے۔
٭٭……٭٭……٭٭