پاور لومز انڈسٹری اور ورکرز کے مسائل کب حل ہوں گے؟
احمد جمال نظامی
ڈپٹی کمشنر سردار سیف اللہ ڈوگر نے ہفتہ رفتہ کے دوران ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پاور لومز مالکان اور ورکرز کے مسائل کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل میاں آفتاب احمد، ڈائریکٹر لیبر ملک منور اعوان، سوشل سیکورٹی آفیسرز، چیئرمین کونسل آف پاور لومز اونرز ایسوسی ایشن وحید خالق رامے، چوہدری محمد نواز، مزدور رہنما بابا لطیف انصاری، اسلم معراج اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ اس دوران ڈپٹی کمشنر سردار سیف اللہ ڈوگر نے کہا کہ پاورلومز مالکان اور ورکرز کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے ضلعی انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ہو اور آجر و اجیر کے مفادات بہتر انداز میں پورے ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاور لومز ورکرز کے مسائل کے حل کے لئے مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے گی اور ان کے حقوق کا ہر ممکن تحفظ کریں گے جبکہ مالکان اور ورکرز کے مابین خوشگوار تعلقات کی بدولت صنعتی ترقی روزگار کا تسلسل ممکن ہے۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ ڈپٹی کمشنر، ڈویژنل کمشنر اور انتظامیہ کے مختلف ارباب بست و کشاد پاور لومز انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لئے یقین دہانیاں کروا چکے ہیں لیکن دوسری طرف پاور لوم انڈسٹری کے مسائل میں نہ صرف بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے بلکہ پاور لومز مالکان کے احتجاج سے کہیں زیادہ پاور لومز ورکر سراپا احتجاج رہتے ہیں۔ میں نے آج سے تقریباً 14سال پہلے جب صحافت کا آغاز کیا تھا تو 2005ء میں پاور لومز ورکروں نے اپنے مطالبات اور مسائل کے حل کے لئے ضلع کونسل چوک میں ایک احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔ اس احتجاجی کیمپ پر انتظامیہ کی عدم توجہی اور حکومتی ذمہ داران کی بھی عدم توجہی کے باعث احتجاج کا دائرہ کار حد سے زیادہ وسیع ہو گیا تھا اور لیبر قومی موومنٹ کے نام سے قائم ہونے والی پاور لومز ورکرز یونین نے بالاخر بھوک ہڑتالی احتجاج شروع کر دیا تھا۔ اس دوران ہر روز ایک دو مزدور بے ہوش ہوا کرتے تھے مگر افسوس انتظامیہ نے پھر بھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ پورے ملک سے بڑے بڑے ٹریڈ یونینز کے لیڈر، این جی اوز کی بڑی شخصیات نے اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی اور بالاخر کسی حد تک فیصل آباد میں پاور لومز ورکروں کے لئے سوشل سیکورٹی رجسٹریشن کا مسئلہ حل ہونا شروع ہوا۔ ان دنوں میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بھی باقاعدہ تقریباً ہر تقریب میں کوریج کے لئے جاتا تھا اور اکثر صنعت کار یہ گلہ کرتے تھے کہ آپ نے لیبر قومی موومنٹ کو فیصل آباد میں مزدوروں کی ایک بڑی تنظیم بنا دیا ہے۔ اس پر کئی صنعت کار ناراض بھی ہوتے تھے لیکن پاور لومز مزدوروں کا موقف درست تھا اور ان کی جدوجہد بھی آئین اور قانون کے تابع تھی۔ تاہم آج چودہ سال گزر جانے کے باوجود بھی میں یہ دیکھتا ہوں کہ پاور لومز ورکرز کے مسائل اب تک حل نہیں ہو سکے۔ پاور لومز ورکر آج بھی ہفتہ وار تعطیل، سوشل سیکورٹی رجسٹریشن، ای او بی آئی کی سہولت، آٹھ گھنٹے کی شفٹ کے مسائل کے مطالبات پر سراپا احتجاج ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے پاور لومز مالکان نے چونکہ اپنی صنعتوں کو نئی جدت سے ہم آہنگ نہیں کیا اور پرانے دور کی ایسی پاور لومز مشینیں چلائی جا رہی ہیں جن سے پیداواری لاگت بھی بہت کم ہوتی ہے اور مزدور کا وقت ضائع ہونے سے مزدوروں کے احتجاج کے بعد جب جب بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوتی ہے یا سوترمنڈی میں سٹہ بازی ختم ہوتی ہے تو ایسی پاور لومز کے مالکان من مرضی کے نرخ حاصل نہ ہونے پر خود بھی احتجاج شروع کر دیتے ہیں اور پھر احتجاج کے دوران صحافیوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی مشینیں کباڑ میں آلو اور پیاز کے بھاؤ فروخت ہو رہی ہیں لیکن معاملہ خاصا مختلف ہے۔ فیصل آباد بنیادی طور پر کاٹن اور لٹھے کا شہر ہے۔ فیصل آباد کی پاور لوم انڈسٹری کے مالکان کی اکثریت کپڑے کو منہ مانگے داموں کم پیداوار کر کے فروخت کرنا چاہتی ہے اور پاور لوم مالکان کا خالصتاً بحران بھی ایسی پرانی مشینوں پر کام کرنے والوں تک زیادہ وسیع ہے جبکہ جدید شٹل لیس لوموں وغیرہ کو بھی بلاشبہ ملک کی معاشی و اقتصادی صورت حال کے پیش نظر مسائل اور بحرانوں کا سامنا رہتا ہے جبکہ آجر اور اجیر کی لڑائی کا اصل مسئلہ روایتی انداز میں پاور لوم چلانے والے مالکان پرانی مشینوں کے ذریعے پیدا کر رہے ہیں۔ دراصل ان کے مسائل کوئی حکومتی ذمہ دار حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ اگر صرف کوئی حکومت شارٹ ٹرم بلاسود قرضوں کے ذریعے پاور لومز انڈسٹری کی مشینری کو اپ گریڈ کرنے کی پالیسی تشکیل دے کر اس پر عملدرآمد کروائے تو مسائل کا 80فیصد تک خاتمہ ہو سکتا ہے البتہ جہاں تک پاور لومز انڈسٹری میں آجر اور اجیر کے مسائل کا معاملہ ہے تو یقین جانیے دکھ ہوتا ہے کہ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں، کوئی صنعت ہو، کوئی ادارہ ہو یا کوئی دکان ہو، اس میں مالک کی سرمایہ کاری اور نگرانی کے ساتھ مزدور کا خون پسینہ اور ہنر بھی شامل ہوتا ہے۔ ہم روز جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ اس جمہوریت کا روز رات کو دن کو ہر وقت راگ الاپتے ہوئے اس کی مالا جپتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے مروجہ قوانین میں آج تک غریب مزدور کا نہیں سوچا جاتا اور جو مزدور مالک سے اپنی قانونی اجرت یا ریٹائرمنٹ پر اپنے واجبات مانگتا ہے اس کو مالک ہمارے کمزور قوانین کے باعث اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ وہ عدالتی فیصلوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور پھر اس ملک میں ہر سال جب بھی کوئی وفاقی بجٹ آتا ہے، چہرے بدلتے ہیں لیکن حالات نہیں بدلتے۔ وزیرخزانہ مہنگے کپڑوں میں ملبوس ہو کر کم از کم اجرت کبھی 14، کبھی 15 اور کبھی 17 ہزار کا اعلان کرتا ہے لیکن حکومت وقت جو تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی ہے وہ سوچے کہ اگر ایک مزدور کو کم از کم اجرت جو حکومت مقرر کرتی ہے اور زمینی حقائق کے مطابق وہ بھی بہت کم ہے وہ ایک مزدور کو دستیاب نہیں آ رہیں تو پھر اس کو ای او بی آئی، سوشل سیکورٹی رجسٹریشن، ہفتہ وار تعطیل اور لیبر لاز کے مطابق آٹھ گھنٹے کون سا ادارہ اور مالک کام کرواتا ہے۔ جب یہ مزدور بوڑھا ہو جاتا ہے اس کا گوشت اس کی ہڈیوں کا ساتھ چھوڑنے لگتا ہے وہ ساری زندگی کی محنت مشقت کے بعد آرام چاہتا ہے تو اسے پنشن کے نام پر کچھ بھی فراہم نہیں کیا جاتا اور اگر بڑے ادارے پنشن کے لئے اسے ای او بی آئی کارڈ فراہم بھی کر دیتے ہیں تو ہمارے پنشن آفس میں بیٹھے ناخدا بھی کرپشن کی دیوی کے پجاری نکلتے ہیں۔ یہ نظام کیسے چل رہا ہے اس کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ اس ملک میں طاقتور اور بااثر طبقہ اپنی من مرضی کی حکومت قانون اور آئین کو تشکیل دے کر اس کو ڈنکے کی چوٹ پر چلواتا ہے۔ کوئی ادارہ، کوئی انتظامیہ افسر اس کے آگے بے بس ہے اور جتنے بھی اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں انتظامیہ، انتظامی افسران سے لے کر حکومتی وزراء اور وزیراعظم تک جتنی باتیں کرتے ہیں وہ بندکمروں کے بند اجلاسوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ ان کمروں سے باہر ان کی گونج صرف میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے اور معاف کیجئے گا اس کا مقصد بھی صرف اور صرف اپنی تشہیر کروانا اور ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اقدامات اٹھانا ہے جبکہ عملی طور پر اس کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ ہم ڈپٹی کمشنر فیصل آباد سردار سیف اللہ ڈوگر سے کہیں گے کہ اگر انہوں نے پاور لومز مالکان اور مزدوروں کے مسائل کے لئے اجلاس منعقد کیا ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کے لئے حکومت پنجاب کو بھی لکھیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو ان مسائل پر بیدار کیا جائے۔ یہ کیسا بھونڈا تماشا ہے کہ ماضی میں ایک صوبے کا وزیرقانون بھٹہ مالکان کو تحفظ فراہم کرتاتھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب چاہتا تھا کہ بھٹہ مزدور کا بچہ سکول جائے اور وزیرلاقانون کہلوانے والا رانا ثناء اللہ خاں ان بھٹہ مالکان کو تحفظ فراہم کرتا تھا۔ آج بھی وہی پاور لومز مالکان کے ایسے لوگ جن سے مزدور ہر دور میں تنگ رہے ہیں وہ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کے اردگرد نظر آتے ہیں۔ ان کی تقاریر میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ یہ کیسی تبدیلی ہے اس کا جواب پورا ملک ڈھونڈ رہا ہے۔ فیصل آباد میں تحریک انصاف کی طرف سے میاں فرخ حبیب، عمران خان کے بہت قریب ہیں اس کے علاوہ فیصل آباد سے دو صوبائی وزراء ہیں۔ میں ہر آنے والی حکومت کے وفاق اور صوبے میں رسائی رکھنے والے طاقتور ارکان اسمبلی یا وزراء کو آئینہ دکھا دکھا کر اور ان سے اختلاف کر کر کے تنگ آ چکا ہوں لیکن تھکا نہیں۔ میاں فرخ حبیب کو چاہیے کہ وہ فیصل آباد کے ایسے مسائل کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ فرخ حبیب سے میری اچھی سلام دعا ہے لیکن بطور صحافی ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہر حکومت ہر انتظامی افسر اور ہر حکومتی نمائندے کو آئینہ دکھایا جائے۔ آخر میں ایک اچھی خبر بھی ہے کہ فیصل آباد سے ملتان موٹروے 20جنوری کو ٹریفک کے لئے کھولے جانے کا امکان ہے اور ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اس موٹروے کا افتتاح کر سکتے ہیں۔ فیصل آباد انڈسٹریل سٹیٹ ایم فور موٹروے ایکسپریس وے پر واقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان فیصل آباد کے صنعت کاروں کے مطالبے پر اسے اکنامک زون یعنی گوادر اور سی پیک کے لئے اکنامک زون ڈکلیئر کر چکے ہیں۔ فیصل آباد کی پاور لوم انڈسٹری کو جیساکہ پہلے کہا گیا ہے شارٹ ٹرم بلاسود قرضوں کے ذریعے اپ گریٹڈ مشینری کے پیش نظر اس انڈسٹریل سٹیٹ میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے اور مزدوروں کو اکنامک زون ڈکلیئر ہوئی انڈسٹریل سٹیٹ کی بابت تمام لیبر لاز کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ میاں فرخ حبیب اور دیگر تحریک انصاف فیصل آباد ضلع کے ارکان اسمبلی اپنا کردار ادا کریں۔ پاور لومز مزدور کئی عشروں سے رو رہا ہے اور اس کے آنسو صاف کرنے والا کوئی نہیں۔ ڈپٹی کمشنر پاور لومز ورکرز کے مسائل بھی حل کروائیں اور بھٹوں کی بھی خودنگرانی کریں۔ ڈپٹی کمشنر کی اب تک شہرت اچھی ہے اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔