180 ارب خسارہ منی بجٹ میں 155 ارب کے ٹیکسز ایک اور مالیاتی بل آنے کا امکان
لاہور(احسن صدیق)موجودہ حکومت 23جنوری کو دو نقاط کی بنیاد پر منی بجٹ پیش کر رہی ہے جن میں بجٹ خسارے کو پورا کرنا اور ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنا شامل ہے ۔ اس وقت حکومت کو 180ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے جبکہ منی بجٹ میں 155ارب روپے کے ٹیکس عائد کئے جائیں گے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شاید ایک اور منی بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق حکومت نے اشیاءتعیش کی درآمد پر ٹیکسز اور ڈیوٹیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ خام مال کی در آمد پر ڈیوٹیاں اور ٹیکسز ختم کرنے یا کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وفاقی وزارت خزانہ کو انجینئرنگ سیکٹر سمیت تمام سیکٹرز کی منی بجٹ کے لئے تجا ویز ارسال کی ہیں جن میں خام مال کی درآمد پر ڈیوٹیاں اور ٹیکسز کم کرنے یا ختم کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر الماس حیدر نے حکومت پر زور دیا ہے کہ آئندہ منی بجٹ میں فائلر اور نان فائلر کی شرط کو ختم کیا جائے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ٹیکس دہندہ اور ٹیکس نا دہندہ کا نظریہ ہے لیکن پاکستان میں فائلر اور نان فائلر کے چکر میں پھنسا کر معیشت کو سلو ڈاون کر دیا گیا ہے جس سے زمینوں کا کاروبار رک گیا ہے اور نئی گاڑیوں کی خریداری بند ہو گئی ہے اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے، ان اقدامات سے مارکیٹ میں کیش فلو ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے معاشی صورتحال درست کرنے کے لئے حکومت پر زور دیا کی ملک میں فوری طور پر فائلر اور نان فائلر کا فرق ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کا جمود ختم کرنے کے لئے ایک اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم دی جائے جو انکم ٹیکس کے لئے نہ ہو بلکہ ای او بی آئی، سوشل سکیورٹی، پراپرٹی ٹیکس سمیت تمام ٹیکسوں کے لئے ہو۔ گزشتہ حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے لئے 2فیصد کی ادائیگی مقرر کی تھی موجودہ حکومت اس سکیم کے لئے 3فیصد سے 6فیصد تک ادائیگی مقرر کردے جو موجودہ اثاثوں کو آمدنی مان کر عائد کیا جائے اور ادائیگی پر سہولت دی جائے کہ ایک مقررہ مدت تک کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اس سے حکومت کو ریونیو ملے گا اس وقت حکومت بھی ریونیو کی قلت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے انجینئرنگ سیکٹر کے خام مال کی درآمد پر اتنے ٹیکس عائد کئے کہ پاکستان میں ڈی انڈسٹرلائزیشن ہوئی صرف سٹیل شیٹ کی درآمد پر مجموعی طور پر 92فیصد ٹیکسز لئے جا رہے ہیں۔خام مال کی درآمد پر ہر قسم کے ٹیکس ختم کئے جائیں ۔انکم ٹیکس کے ریفنڈ ادا کئے جائیں شرح سود کو کم کیا جائے کیونکہ اس وقت افراط زر کی شرح 6.5فیصد ہے جبکہ شرح سود 10فیصد ہے جس کے باعث لوگوں کے کا روبار ختم ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ حکومت سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 15فیصد کرے۔صنعتی خام مال کی درآمد پر ہر قسم کا ٹیکس ختم کرے تاہم لگژری اشیاءکی درآمد پر ڈیوٹیاں اور ٹیکسز بڑھائے جائیں ۔پراگریسو ٹیکس امیروں پر عائد کئے جائیں ۔ فائلرز کے لئے بینکوں سے 50ہزار روپے سے زائد نکلوانے پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جائے اس ٹیکس کے باعث بنکینگ سیکٹر متاثر ہو رہا ہے۔ آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اشرف بھٹی نے کہا ہے کہ حکومت ایف بی آر کی جانب سے چھاپے مار کر ہراساںکرنے کے سلسلے کو فی الفور بند کرائے ،23جنوری کو بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا جائے اشرف بھٹی نے کہا کہ ٹیکس دینے والوں کو شک کی نگاہ کی دیکھنے کی پالیسی خود حکومت کےلئے سود مند نہیں۔ کسی بھی مارکیٹ میں چھاپے سے قبل متعلقہ ایسوسی ایشن او ریونین کے عہدیداروں کو اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت کو پیشکش کر چکے ہیں کہ ہم مارکیٹوں کا سروے کرانے کےلئے تیار ہیں لیکن پہلے حکومت اپنی پالیسی واضح کرے ،چھوٹے تاجروں کےلئے فکس ٹیکس کا نظام لائے۔ اشرف بھٹی نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ 23جنوری کے بجٹ میں ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
اسلام آباد (جاوید صدیق+ نمائندہ خصوصی) 23جنوری کو پارلیمنٹ میں منی بجٹ تجاویز کے ذریعے حکومت اپوزیشن کو ایک سرپرائز دینے کی کوشش کرے گی۔ نوائے وقت کو معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت 23 جنوری کو برآمدات بڑھانے کیلئے صنعت کاروں اور تاجروں کیلئے مراعات کا اعلان کرے گی۔ درآمدات میں بڑی حد تک کمی کی جائے گی تاکہ ملک کا قیمتی زر مبادلہ بچایا جاسکے۔ ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مزید ٹیکس لگا کر اشیائے صرف کو مہنگا کرنے سے حکومت کیخلاف رائے عامہ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ صورتحال سے بچنے کیلئے حکومت آمدنی میں اضافہ کیلئے ٹیکس لگانے سے گریز کرے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ کی طرف سے بتائے گئے نکات کی روشنی میں ”منی بجٹ تقریر“ تیار کرلی گئی ہے۔ وزیر خزانہ بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے جو اس مالی سال کا دوسرا منی بجٹ ہوگا۔ بجٹ میں لگژری آئٹمز کا نام لے کر بھاری ٹیکس اقدامات متوقع ہیں۔ اس کے ساتھ میکرو اکنامک فریم ورک کے مختلف سیکٹرز جن میں ہاو¿سنگ اور مینو فیکچرنگ شامل ہیں کے لئے مراعات کا اعلان کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ / تقریر