ذیشان گاﺅں دیکھنے گیا‘ انصاف سے پہلے دہشت گرد کا لیبل اتاریں : والدہ اہلیہ کے بین
لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) سانحہ ساہیوال کے مقتولین خلیل، نبیلہ، اریبہ اور ذیشان کے گھروں میں تیسرے روز بھی تعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا، آہوں اور سسکیوں کے درمیان فاتحہ خوانی اور انصاف کے مطالبے کی توانا آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ چونگی امرسدھو میں سارا دن شدت غم سے نڈھال بوڑھی ماو¿ں اور روتی بلکتی بہنوں کے دل فگار بین سن کر شدید سردی اور بارش میںدور دراز سے آنے والوں کی ہچکیاں بندھتی اور ضبط کے بندھن ٹوٹتے رہے۔ ”دہشگرد“ قرار پانے والے مقتول ذیشان کی والدہ حمیدہ بی بی نے بتایا میں نے سلائی کڑھائی اور محنت مشقت کرکے بچے پالے۔ انہیں پڑھایا لکھایا آج جب یہ اس قابل ہوا کہ میں آرام کی زندگی بسر کرسکوں تو میرے جوان بیٹے کا لاشہ گھر پہنچا کر اسے دہشتگرد قرار دےدیا گیا، بتائیں کیا عزت رہ گئی ہماری ، میں فالج کی وجہ سے معذور ہو چکی ہوں، ویسے تو حکمران اسے”مدینہ جیسی بستی“ کہتے ہیں کیا عمران ہمارا حال پوچھیں گے ، میرا نمازی پرہیزگار بیٹا ڈرائیور نہیں تھا وہ توکمپیوٹر کا کام کرتا تھا اور گاو¿ں دیکھنے ‘سیر سپاٹا کرنے کے شوق میں اپنے دوست مہر خلیل کےساتھ ہنستے کھیلتے گیا۔ بیوی زرینہ نے زاروقطار روتی آٹھ سالہ بیٹی یشفیٰ کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا انصاف بعد کی بات پہلے ہمارے سر سے ”دہشتگرد“ کا لیبل تو اتاریں تاکہ ہم باقی زندگی عزت سے گزار نے کے قابل ہوسکیں۔ بھائی احتشام نے کہا میں ڈولفن فورس میں بھرتی ہوا تو سپیشل برانچ سمیت دیگر اداروں نے میرے بھائی کی بھی چانچ پڑتال کی تب انہیں پتہ نہیں چلا وہ دہشت گرد ہے، ہمیں انصاف کی امید نہیں، جو شادی پر جانے والوں کو دہشتگرد بنا سکتے ہیں وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، یہ کیسا مقابلہ تھا مقتولین سیٹ بیلٹس باندھے تھے اور دوسری طرف سے سیدھی گولیاں چل رہی تھیں، آرمی چیف‘ وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل ہے۔ خالہ فاطمہ اور ساس بشریٰ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کہا ہم نے بہت عزت سے زندگی گزاری یہ آج کیا سننا پڑ رہا ہے، کوئی خدا کا خوف کریں اور ہمارے بچے کو دہشتگرد کہہ کر زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔ مقتول مہرخلیل کی بوڑھی والدہ رقیہ بی بی ”میرا گھر خالی ہوگیا“ کہتی اور بیٹے کو آوازیں دیتی رہیں، پانچوں بہنیں اور بھابھیاں غم کی تصویر بنی مقتول جوڑے کے نام لے لے کر روتی اور کہتی جاتیں ”ہمارے گھر کے سربراہ اور نیک سیرت بھابھی کو معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے مارڈالا۔ بہنوں کنیز فاطمہ، سعیدہ نے کہا بھائی امی کا سہارا تھا، شادی پر جاتے ہوئے ہمیں ان کے پاس چھوڑ کر گیا۔ بھابھی فاخرہ عمران نے کہا ہمارے پیارے بے گناہ مارے گئے، ہمیں انصاف چاہئے۔ بھابھی صادقہ نعیم نے کہا میرے شوہر عمران کینسر کے مریض ہیں خلیل بھائی ہمارے بھی کفیل تھے، اب ہمارا کوئی کمانے والا نہیں رہا۔ خالہ کی گود میں لیٹی پھول سی بچی ہادیہ کہتی رہی ماما پاپا عمرہ کیلئے گئے ہیں جس پر ہر آنکھ اشکبار ہوجاتی۔ مقتولہ اریبہ کی ٹیچر افشاں نے کہا اریبہ بہت مہذب بچی تھی۔
والدہ / ذیشان