سانحہ ساہیوال : سینٹ‘ قومی‘ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج‘ جے آئی ٹی مسترد
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس چیئرپرسن منزہ حسن کی زیرصدارت ہوا، ساہیوال واقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا گزشتہ دنوں ساہیوال میں انتہائی دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ افسوسناک واقعہ کے بعد حکومت نے کئی پینترے بدلے۔ پہلے کہا گیا مرنے والے دہشتگرد تھے، پھر کہا گیا گاڑی کے شیشے کالے تھے لیکن جس طرح سے نہتے لوگوں پر ظلم کا پہاڑ توڑا گیا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ جس طرح سابق حکومت میں ماڈل ٹاو¿ن اور قصور واقعے پر عمران خان نے سیاست چمکائی، ہم اس طرح اس واقعے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے تاہم جس طریقے سے ظلم اور زیادتی کی گئی شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو۔ انہوں نے کہا اس اندوہناک واقعے پر ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن وزیراعظم عمران خان نے چوبیس گھنٹے بعد صرف ایک ٹویٹ کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا وزیراعظم کو سانحہ ساہیوال پر عوام کو جواب دینا ہوگا۔ اس واقعہ نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہم دھرنا نہیں دیں گے لیکن اصل حقائق سامنے آنے تک ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ملک میں قانون سب کے لیے ایک ہو تو سب کچھ رک سکتا ہے۔ راو¿ انوار کو سزا دی ہوتی تو پولیس والوں کو کچھ تو احساس ہوتا۔ راو¿ انوار بھی کہتا تھا کہ دہشت گرد مارے تھے، جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہم نے روکنا ہے۔ انہوں نے کہا انتظامی ڈھانچوں میں ستر سال سے مداخلت ہوتی ہے، آج بھی آئی جی، ڈی سی اور ایس ایچ او سفارشوں پر لگوائے جاتے ہیں اور تبدیل ہوتے ہیں، ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا سوشل میڈیا سے جذبات کا اظہار نہیں کیا جاتا، پنجاب کی حکومت اس معاملے میں فریق بن چکی ہے، پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے جو انویسٹی گیشن کرے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر علی محمد خان کی ایوان کی کارروائی ملتوی کرکے ساہیوال واقعہ پر بحث کی تحریک منظور کر لی گئی۔ حکمران کنفوڑن کا شکار کچھ نہیں پتا کیا کہنا ہے، یہ حکومت جس طرح جا رہی ہے کسی بھی وقت حادثہ ہو سکتا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ جے آئی ٹی بنانا فیشن بن گیا ہے، اس کیس میں انصاف ہونا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا باقی دہشت گردوں کی طرح سانحہ ساہیوال میں ملوث اہلکاروں کیخلاف بھی مقدمات چلائے جائیں کیونکہ دہشت گردی ختم کرنے والے خود دہشتگرد بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ساہیوال واقعہ میں اصل دہشت گرد وہ تھے جنہوں نے خون بہایا، ان پر دہشت گردوں کی طرح مقدمہ چلایا جائے جبکہ دہشت گردی ختم کرنے والے آج خود دہشت گرد بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا عمران خان اور علی محمد اپنی تقاریر کا دوبارہ جائزہ لیں، آج موقع ہے عمران خان جس انصاف کا دعوی کرتے تھے وہ کرکے دکھائیں اور اس ایوان کو اختیار دیں تاکہ وہ معاملہ دیکھے کیونکہ پنجاب حکومت فریق بن چکی ہے یہ لوگ ایس ایچ او تک اپنی مرضی کے لگا رہے ہیں جو ایوان کی توہین ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا سانحہ ساہیوال معمولی واقعہ نہیں اس سے دنیا لرز اٹھی ہے ہر آدمی اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا 19 جنوری سے سانحہ ساہیوال دنیا کو رلا رہا ہے لیکن اس پر حکومتی وزراءکے بیانات قابل اعتراض ہیں۔ اس کے علاوہ دکھ کی بات ہے وزیراعلی پنجاب بچوں کے پاس پھول لے کر گئے کیا کسی کے گھرماتم ہو تو پھول پیش کئے جاتے ہیں؟ کیا کل کوئی ہم میں سے اپنی فیملی کیساتھ جا رہا ہو گا تو کیا اسے بھون دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا حکومت نے اس معاملے پر جھوٹ بولے، گئی گزری حکومت بھی ہوتی تو اس وقت تحقیقات مکمل ہو جاتی جس چیز کو سرد خانے میں ڈالنا ہو جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ خدا کا خوف کیجئے، چار دن ہو گئے کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا خدا کے لئے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال نہ کیاجائے، کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا تھا؟ وزیراعظم صاحب ٹویٹ کرکے کہتے ہیں صدمے میں چلا گیا ہوا۔ انہوں نے مطالبہ کیا وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کو ساہیوال واقعہ کے بعد استعفیٰ دے کرقوم سے معافی مانگنی چاہئے۔وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے قومی اسمبلی اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ماضی کی غلط پالیسیوں نے لوگوں کو پہاڑوں پر جانے پر مجبور کیا۔ ساہیوال واقعے پر اس وقت جے آئی ٹی بنا دی گئی۔ مجھے مستعفی بھی ہونا پڑا تو ملوث افراد کو مثال بنا کر چھوڑیں گے۔ سانحہ ساہیوال پر پوری قوم آبدیدہ ہے۔ سانحہ ساہیوال کا جواب حکومت کو دینا پڑے گا اور ہم دیں گے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد بے شک پارلیمانی کمیٹی بنا دی جائے۔ الزامات در الزامات سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ جے آئی ٹی رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے گی، ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے گی۔لاہور سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے سانحہ ساہیوال کے واقعہ پر جوڈیشل کمشن بنانے کے مطالبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی جس میں کہا گیا ہے عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے عوام کے قاتل بن گئے ہیں۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) جے آئی ٹی کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ پشاور سے بیورو رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی نے سانحہ ساہیوال کے خلاف مذمتی قرارداد خیبر پی کے اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ ریاست بچوں کی پرورش والدین بن کرے۔ آئی این پی کے مطابق وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ آئیں ماڈل ٹاﺅن، نقیب اللہ محسود اور تمام واقعات ملٹری کورٹ کے حوالے کر دیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے۔ پاکستان دشمن قوتیں نوجوانوں کا برین واش کر رہی ہیں، سانحہ ساہیوال پر پوری قوم مضطرب ہے، سانحہ ساہیوال کا جواب حکومت کو دینا چاہیے اور وہ ہی اس کا جواب دے گی، سپیکر قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنا دیں جو بلوچستان یا کہیں بھی انصاف کیلئے کام کرے۔
قومی اسمبلی
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+اے پی پی) سینٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے کہا ہے کہ ساہیوال واقعہ پر پوری قوم دکھی ہے، حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ سانحہ ساہیوال پر ضرور بات کرنی چاہئے تاہم ایوان کے قواعدو ضوابط پر عمل کرنا ہو گا۔ راجہ ظفرالحق نے کہا بعض سانحات پر فوری توجہ نہ دی جائے تو ایوان کے نمائندہ ہونے پر حرف آتا ہے۔ ہم اتنے سنگدل ہو گئے ہیں اس پر بحث نہیں کرتے؟ اپوزیشن نے طے کیا ہے اس بات پر فیصلہ کریں گے۔ شبلی فراز نے کہا اپوزیشن کو بات کرنی تھی تو ہا¶س بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں اطلاع کرتے۔اس ملک میں روز ہی اس طرح کا واقعہ ہو گا۔ شبلی فراز کے اس بیان پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور سانحہ ساہیوال پر ایوان میں بحث کرانے کا مطالبہ کیا۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے اپوزیشن کا مطالبہ مان لیا اور اس پر بحث شروع ہوئی۔ سینٹ میں حزب اخلتاف نے سانحہ ساہیوال پر حکومتی م¶قف کو مسترد کرتے ہوئے کہا فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصوروار غلط اطلاع دینے والے ہیں اور معاملہ مشکوک تھا تو پردہ ہٹائیں۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے سانحہ ساہیوال پر حکومتی م¶قف کو مسترد کرتے ہوئے کہا سانحہ ساہیوال پر مسلسل م¶قف تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن اب یہ کیمرے کی زد میں آ گئے ہیں۔ بتایا گیا یہ واقعہ تو منصوبہ بندی کے تحت تھا اور پنجاب حکومت نے ان لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا اور اگر دہشت گرد تھے تو کیا ان کے خلاف گولیاں چلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا ہم نے پہلے کبھی ایسے واقعات پر جے آئی ٹی بنتے نہیں دیکھی اور اب لوگ پوچھ رہے ہیں ہم بچوں کے ساتھ باہر نکلیں یا نہیں۔ را¶ انوار ہو یا کوئی اور انسانی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، ماورائے عدالت قتل بھی رُکنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا یہ ہمیں منظور نہیں، معاملے کو کور اپ کئے جانے کی بو آ رہی ہے اور یہ معاملہ مشکوک تھا تو پردہ ہٹائیں۔ ہم باہر نکلیں تو کیا ایک دہشت گرد کی وجہ سے ہمیں بھی گولیاں مار دی جائیں گی۔ انہوں نے کہا معاملے سے متعلق کل تک جواب دیا جائے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا سانحہ ساہیوال انتہائی افسوسناک سانحہ ہے۔ کون سے انٹیلی جنس ادارے تھے جنہوں نے غلط اطلاع دی۔ فائرنگ کرنے والوں سے زیادہ قصوروار غلط اطلاع دینے والے ہیں، وہ دہشت گرد تھے بھی تو کیا اداروں کو اس طرح سڑکوں پر گولیاں چلانے کا حق ہے تو پھر کیا عدالتوں کو تالے لگائے جائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا پولیس مقابلوں کا آڈٹ کرایا جائے۔ اے پی پی کے مطابق سینٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے ساہیوال واقعہ کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا اس معاملہ کی تفصیلات قوم کے سامنے آنی چاہئیں، ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایوان بالا میں عوامی اہمیت کے معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا ساہیوال میں ایک سنگین واقعہ پیش آیا، اس معاملہ پر ایوان میں بحث خوش آئند ہے کیونکہ یہ ایک انسان نہیں بلکہ کئی انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔ پولیس کا اس واقعہ کے حوالے سے موقف درست نہیں۔ فائرنگ کرنے والے پولیس کی وردی میں نہیں تھے اور مقتولین نے سمجھا شاید وہ ڈاکو ہیں، اس لئے انہوں نے کہا پیسے لے لیں لیکن ہمیں گولیاں نہ ماریں۔ واقعہ کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا اب ہر معاملہ میں جے آئی ٹی کا رواج پڑ گیا ہے، ہم اس معاملہ پر جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ جے آئی ٹی سے قبل ہی پنجاب حکومت اور انتظامیہ کا موقف پریس کانفرنسز کے ذریعے آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس واقعہ کے جو بھی ذمہ دار ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ واقعہ کی دو ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کی رولنگ ہے ایک واقعہ پر دو ایف آئی آرز نہیں بن سکتیں۔ مقتولین کے لواحقین کی ایف آئی آر میں بھی نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس واقعہ میں جو لوگ ملوث ہیں انہیں نہیں بچنا چاہئے۔ نیوز رپورٹر کے مطابق حکومت کوشش کے باوجود ایوان بالا میں سانحہ ساہیوال پر بحث رکوا نہ سکی۔ حکومتی ارکان کا موقف تھا جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد اس پر ایوان میںبحث کی جائے تاہم اپوزیشن ارکان بشمول قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق کا موقف تھا یہ اہم معاملہ ہے اور پورا ایوان اس پر بات کرنا چاہتا ہے اس لئے اس کو اولیت دی جائے۔ قائد ایوان شبلی فراز مسلسل اس کی مخالفت کرتے رہے۔ لیکن انہیں کامیابی نہ ہوسکی۔ چئیرمین سینٹ نے اس کا حل نکالا اور ایوان کا موڈ دیکھتے ہوئے مسئلے کا حل نکالا اور کہا تحریک التواءکی بجائے عوامی اہمیت کے حامل معاملہ کے طور پر اس پر تمام ارکان اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سینٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سانحہ ساہیوال پر بنائی جے آئی ٹی کی تشکیل کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمشن بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹر رحمان ملک کے زیر صدارت سینٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا پارلیمنٹ ہاو¿س میں اجلاس ہوا۔کمیٹی نے کہا سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی کمیٹی درست نہیں آئی جی پنجاب کی سرپرستی میں جے آئی ٹی کام نہیں کرے گی۔ آزاد جے آئی ٹی ہائی کورٹ اور سیشن ججز کی سربراہی میں بنائی جائے۔ رحمان ملک نے کہا انصاف ہونے تک کمیٹی اسکی پیروی کرتی رہے گی۔
سینٹ
لاہور(خصوصی نامہ نگار )پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے سانحہ ساہیوال پرشدید احتجاج کیا اور جے آئی ٹی کے ذریعے تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا جبکہ حکومت نے کہا پہلے جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے دی جائے ایوان نے محسوس کیا تو جوڈیشل کمیشن بھی بن سکتا ہے ، قائد حزب اختلاف کو دعوت دیتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کےساتھ بیٹھ کر اس کا جائزہ لیں ، اس معاملے میں اپوزیشن کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائےگا بلکہ ساتھ لےکر چلیں گے ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ 45منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں ٹرانسپورٹ اور خزانہ کے محکموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے جانا تھے تاہم اجلاس کے آغاز پر ہی اپوزیشن کی جانب سے سانحہ ساہیوال پر احتجاج شروع کر دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا معمول کی کارروائی کو ملتوی کر کے سانحہ پر بحث کی جائے ۔اپوزیشن ارکان نے جے آئی ٹی نا منظور ،ظالمو جواب دو سانحہ ساہیوال کا جواب دو، ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے اور ظالم ظالم کے نعرے لگائے ۔ا پوزیشن کے احتجاج پر وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا جے آئی ٹی کی آج بروز منگل شام پانچ بجے رپورٹ مل جائےگی ۔رپورٹ آنے کے بعد پرسوں پورا دن بحث کر لی جائے ۔(ن) لیگ کی رکن اسمبلی عظمیٰ بخاری نے کہا جے آئی ٹی کی رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے ، قاتل بھی وہی ہیں منصف بھی وہی ، پھر انصاف کیسے ہوگا۔ اس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا وزیر قانون راجہ بشارت نے کہہ دیا ہے پرسوں اس پر بحث کر لیں گے آپ جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار کر لیں اور آپ کے جو بھی تحفظات ہوں وہ اس دن بیان کر دیں ۔ وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا ساہیوال کا واقعہ صوبے میں اس طرح کا پہلا واقعہ نہیںجس پر اپوزیشن نے نعرے بازی شروع کر دی ظالمو جواب دو سانحہ ساہیوال کے ظلم کا حساب دو ، جے آئی ٹی نا منظور، ظلم کے ضابطے ہم نہیںمانتے ، لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی ۔اس موقع پر صوبائی وزیر سمیع اللہ چوہدری نے کہا جس طرح اپوزیشن کے دل چھلنی ہیں حلفاً کہتا ہوں ہمارے دل ان سے زیادہ چھلنی ہیں ، ہم بھی بچوں والے ہیں، حکومت کی جانب سے کوئی کوتاہی نہیں ہو گی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ہم ماضی کی تاریخ نہیں دہرائیں گے ۔حکومتی رکن سعید اکبر نوانی نے کہا پورا پنجاب پورا پاکستان اس ایوان پر نظر رکھے ہوئے ہے ہم کیا بحث کر رہے ہیں ۔ ندیم کامران نے کہا ہمارا کوئی عزیز فوت ہو تو ہم سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں ایوان کی کارروائی ملتوی کر دیتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ نے تسلیم کیا بہت بڑا ظلم ہے لیکن آج اس پر بات نہیں کرنے دی جارہی ۔ سابق سپیکر رانا محمد اقبال کی تجویز پر سانحہ میںجاں بحق افراد کےلئے فاتحہ کرائی گئی ۔انہوںنے تجویز دی رولز معطل کر کے بحث کی جائے۔ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے کہا جے آئی ٹی کے حوالے سے خدشات ہیں ، حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو پھر اسے آج بحث سے کیا اعتراض ہے ۔ پولیس فائرنگ کر کے قتل کرتی ہے اور وزیرا علیٰ مرنے والوں کے بچوں کو ہسپتال میں گلدستے پیش کرتے ہیں ۔ سی ٹی ڈی اہلکار چار لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں ایف آئی آر نامعلوم کےخلاف درج ہوتی ہے ۔ جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں واقعہ کی تحقیقات کےلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے ۔حکومتی بنچوں پر بیٹھنے والے کل تک کنٹینر پر چڑھ کر استعفوں کے مطالبے کرتے تھے کیا ہی اچھا ہوتا سانحہ ساہیوال پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ مستعفی ہوتے ۔ وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کیا ماضی میں ایسے واقعات نہیں ہوتے رہے جس پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے جس پر راجہ بشارت بھی غصے میں آگئے اور انہوں نے کہا آپ پر شیم ۔ انہوں نے کہا ہم بھاگیں گے نہیں بلکہ ایوان میں بحث کریں گے ۔ قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا اس واقعہ پر ہم سیاست نہیں کریں گے ہم نے حکومتی موقف میں بار بار تبدیلی دیکھی ۔ حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا اس واقعہ کی تحقیقات کےلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے ۔ اس دوران اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور دوبارہ نعرے بازی شروع کردی ۔ سردار شہاب الدین نے کہا میری یہ بات غلط ثابت ہو جائے تو میں استعفیٰ دیدوں گا۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروںنے غلط کام کیا ہے تو یقین دلاتا ہوں انہیںقرار واقعی سزا ملے گی ۔ خلیل طاہر سندھو نے کہا وزیر اعلیٰ پہلے ”دستے “ بھیجتے ہیں اور پھر گلدستہ لےکر جاتے ہیں ۔ معاملے پر ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیے جو اس کی نگرانی کرے ۔ صوبائی وزیر اسلم اقبال نے کہا حکومت کی جانب سے یقین دلاتا ہوں جس نے غلطی کی اسے سزا ملے گی ۔ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے ۔ وزیر پراسیکیوشن ظہیر الدین نے کہا سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ دار سابق وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کو بیرون ملک کمرشل اتاشی بنایا گیا جبکہ ایک ڈی آئی جی کو بیرون ملک جانے کی اجاز ت دیدی گئی ۔ ہم یقین دلاتے ہیں کوئی ذمہ دار ملک چھوڑ کر نہیں جانے پائے گا۔ ملک محمد احمد نے کہا سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور ساہیوال کو جوڑنے والے حق بجانب نہیں، دونو ں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ماڈل ٹاﺅن میں مظاہرین ایجی ٹیشن کر رہے تھے اور یہ بھی افواہیں تھیں دو پولیس افسرہلاک ہو گئے ۔حکومت کی جانب سے ایجنڈے پر چار مسودات قانون شامل تھے اور جیسے ہی سرکاری کارروائی کا آغاز ہوا اوروزیر قانون راجہ بشارت نے گھریلو ملازمین کے حوالے سے بل ایوان میں پیش کیا تواپوزیشن کے رکن وارث کلو نے کورم کی نشاندہی کر دی ۔ دوبارہ گنتی میںبھی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو سکی تو اجلاس آج صبح 11بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔
پنجاب اسمبلی