• news
  • image

ساہیوال ،سانحۂ ماڈل ٹائون کا تسلسل

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ہم سانحات کی تمنائی قوم ہیں تاہم سانحات کے ہم عادی ضرور ہوچکے ہیں۔ہم جیسی تماشائی بھی شاید ہی دنیا میں کوئی اور قوم ہو۔کوئی سانحہ ہوجائے ہم ایک رنج،دکھ اور غم وغصے کے ساتھ سڑکوں پر ہوتے ہیں،میٹرو موٹر وے اور شاہراہیں و سڑکیں بلاک کرکے پورے ملک کو اپنے دکھ درد میں شامل کرنے کا چارہ کرتے ہیں۔مگر یہ اُبال وقتی ثابت ہوتا ہے۔رنج و الم ایک دو روز میں بارش میں دھول کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور پھر ہم بے حسی اور بے اعتنائی کی ڈگر پر اگلے ایسے ہی سانحے کے منتظر ہوتے ہیں۔
نجانے کونسا نشہ کرکے یہ سوئی ہے
یہ مردہ قوم ہے یارو اسے جگانا کیا
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح ساہیوال میں ہونیوالی بربریت نے بھی انسانیت کا معمولی سا درد رکھنے والوں کو دہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک صدمے اور شدید تکلیف کی لہر دوڑ گئی۔جہاں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی فائرنگ سے میاں بیوی بیٹی اور ڈرائیور جاں بحق ہو گئے، دو معصوم بچے بھی زخمی ہوئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں پولیس کی طرف سے انکے باسزکے کہنے پر کھلی دہشت گردی کی گئی۔ سامنے چیختے چلاتے بچے اور خواتین پر پولیس رحم کرنے کیلئے تیار نہ ہوئی۔ بعدازاں اس کیس کو سیاسی دباؤ کے تحت دبانے کی کوشش کی گئی تاہم وہ کیس مولانا طاہر القادری کے ایک مشن کی طرح لینے کے باعث پھر زندہ ہوگیا اور وہ لوگ جو اسکے اصل ذمہ دار ہیں اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ساہیوال میں لاہور سے جانے والی فیملی کو دہشت گرد سمجھتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ چار لوگ مارے گئے ہیں جبکہ تین بچے زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا درد دیکھا نہیں جا رہا، اپنے والدین سے بچھڑنے کے بعد بچے چیخ وپکار اس طریقے سے کر رہے ہیں کہ دل پسیج جاتا ہے، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک سفاکی اور بربریت ہے۔اس پر بچوں کے اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ عوام نے بھی شدید احتجاج کیا اور اگلے روز اس وقت تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، جب تک تھانے میں 16 سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف دہشتگردی اور دیگر سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج نہیں کرلیا گیا۔چینلوں پر اس واقعہ کو کربلا بنا کے پیش کیا جاتا رہا۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے اس پُر درد سانحہ کا فوری نوٹس لیا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلانے کا برملا اظہار اور اعلان کیا گیا۔ صدر مملکت نے بھی مجرموں کی عبرت ناک سزا کے حوالے سے بیان دیا۔ وزیر اعلیٰ کے حکم پر سی ٹی ڈی کے اس معاملے میں ملوث تمام اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا۔سانحہ ساہیوال کے حوالے سے بہت سے سوال اٹھتے ہیں اگر اس گاڑی میں واقعی دہشت گرد سفر کر رہے تھے تو ان کو زندہ پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ اسکے ساتھ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ شادی میں شرکت کرنیوالے لوگوں کی گاڑی کو مانگامنڈی سے ٹریس کیا جانے لگا تھا۔حکومتی مؤقف ہے کہ موقع پر موجود اہلکاروں نے پوری تسلی کر کے گاڑی کو نشانہ بنایا۔ وزیر قانون کہہ رہے ہیں کہ گاڑی سے ایک خودکش جیکٹ ملی اور کچھ اسلحہ بھی گاڑی کے اندر موجود تھا۔یہ عجیب بھی عجیب اور انوکھی بات ہے کہ اسی روز جب یہ واقعہ ساہیوال میں ہوا اسی روز گوجرانوالہ کے قریب سی ٹی ڈی نے مبینہ دہشت گردوں کے مابین مقابلہ میں داعش پنجاب کے کمانڈر کاشف لنگڑے اور عبدالرحمن کو ہلاک کیا۔ یہ دہشت گرد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا اور چیف جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے بھتیجے کے اغوا اور قتل کے سات خفیہ ادارے کے انسپکٹر کے اغوا اور پولیس کانسٹیبل حسیب کو شہید کرنے سمیت دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھے۔میڈیا میں نشر اور شائع کی جانیوالی رپورٹس کیمطابق چونگی امر سدھو سے شادی کیلئے جانیوالے اس بدقسمت خاندان کی گاڑی ذیشان نامی شخص چلا رہا تھا جس کے دہشتگردوں کے ساتھ مبینہ رابطے تھے اور وہ کئی دہشت گردی کی وارداتوں میں مطلوب تھا۔اب تک سامنے آنیوالے شواہد اور ویدیوزسے اہلکار قصور وار نظر آتے ہیں،گاڑی کی تلاشی کے بعد فائرنگ کا پولیس کیا جواز پیش کریگی۔وزرا جو کہہرہے ہیں وہ عذر گناہ بدتر از گناہ ہے جبکہ صدر اور وزیراعظم کا مؤقف جدا گانہ اور ہمدردانہ ہے۔کچھ لوگ اس بدترین سانحے پر بھی سیاست چمکا رہے ہیں،ایسے رویے شرمناک ہیں۔پی پی چیئرمین بلاول نے ساہیوال واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج کے حکمران بتائیں سانحہ ساہیوال کا ذمہ دار کون ہے؟ سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ تمام چیزیں سامنے ہیں ، اس پر کمیٹی بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلاول کا بیان مضحکہ خیز ہے بلاول کو اچھے اتالیق کی ضرورت ہے، خورشید شاہ اینڈ کمپنی انکی سیاست کی نیا ڈبو دینگے۔حکومتی احکامات پر فوری طور پر جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے۔ جسے تین دن میں رپورٹ دینے کو کہا گیا ہے۔ وزراء کے بیانات کیمطابق ذیشان نے ایک شریف خاندان کو دہشتگردی کے حوالے سے ڈھال کے طور پر استعمال کیا، کیا وہ بھی بے گناہ تھا؟، تحقیقات کاعمل ذیشان کے گرد گھوم رہا ہے۔ذیشان اگر مجرم قرار پاتا ہے تو جو بے گناہ لوگ اس واقعہ میں مارے گئے، خصوصی طور پر جس طرح بچے یتیم ہوئے ہیں، یہ دکھ اپنی جگہ موجودرہے گا۔ بہرحال حکومت کیلئے یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے ،تاہم اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ محض شدید عوامی ردعمل کے دباؤ میں آکر ملزموں کے ساتھ کوئی زیادتی بھی نہیں ہونی چاہیے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن