تعفن خوشبوکیا دے گا
حکومت،ریاست،اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے متعلق جب بھی سنا یہی سنا کہ فلاں کی ذمہ داری ہے فلاں کی پالیسی غلطی ہے فلاں نے عملدرآمد نہیں کروایا تو جناب مانا کہ ایسا ہی ہوتاہے لیکن ذرا غور کریں تو ایک خاندان میں والدین ہوتے ہیں ان کے بیٹے، بیٹیاں، داماد اور بہوئیں ان کی ذمہ داری کے دائرہ کار میں آتے ہیں ایک حد اور مدت تک والدین معاشرتی، خاندانی، مذہبی اور اخلاقی تعلیم وتربیت سے انہیں آراستہ کرکے اپنی منزلوں کی طرف گامزن کردیتے ہیں جب تعلیم وتربیت مکمل ہوگئی تو ان کی کسی بھی کوتاہی پہ والدین کو مورودالزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے مگر ہمارے ہاں ہر حکومت کے ساتھ ایسا ہی ہوا، ایک ادارہ یا ادارے کا ایک فرد اگر غلط کام کرتاہے اپنی حد سے تجاوز کرتاہے تو اس کو اور اس کے آفیسر کو تو کٹہرے میں کھڑا کیاجاسکتاہے مگر پورے ادارے کو نہیں۔پی ٹی آئی کے رہنمائوں چوہدری اکرم، محمدسرور،نعیم الحق کے ساتھ ایثار رانا کی سربراہی میں قلم دوست کے صحافیوں ودیگر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایک غیررسمی ملاقات کی، پی ٹی آئی کے رہنما نعیم الحق صاحب کے کہنے کے مطابق ہم نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت اداروں کی کارکردگی میں شگاف تھے جن سے مسائل تارپین کے تیل کی طرح بہہ رہے تھے، پی ٹی آئی کے حکمرانوں کو اندازہ تو تھا کہ مسائل گھمبیر ہیں مگر ان کی انتہا کا علم نہیں تھا ایسا لگ رہا تھاجیسے اقتصادی عمل پچھلے کئی سالوں سے معطل تھا، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اربوں کے واجبات دھرے تھے حکومت کا دیوالیہ نکل چکا تھا 4ارب کی آمدنی اور آٹھ ارب کے اخراجات تھے، پاکستان کا عالمی تاثر اقتصادی پہلو سے منفی تھا کوئی بھی پالیسی واضح نہیں تھی اس لیے آج عوام کو مہنگائی سے نبردآزما ہونا پڑرہاہے۔ لیکن انشاء اللہ دوماہ کے اندر اب یہ معاملات کنٹرول میںآجائیں گے۔ اسی لیے وزیراعظم خان نے کہاکہ کسی سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی چاہے وہ میں ہی کیوں نہ ہوں، آپ دیکھئے گاکہ اب قانون کی حکمرانی ہوگی، پہلے تبدیلی خبروں میں آئی ہے اب یہی تبدیلی نظام میں آئے گی۔میرا سوال یہ ہے کہ نظام میں تبدیلی کیلئے کتنا وقت درکار ہوگا اس وقت کے آنے تک کتنے سانحوں سے عوام کو گزرنا ہوگا؟ نعیم صاحب کا کہنا تھاکہ پولیس کا نظام تعفن زدہ ہے مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے مگر نظام تعفن زدہ نہیں ہے، ہر وہ فرد جو وردی میں ہے یا بنا وردی کے اور صرف اپنی ذات اپنے فیصلے، اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر انتہاپسند ہوجاتاہے وہ تعفن زدہ ہے، معاشرہ تعفن زدہ نہیں ہے اس کو بدبودار بنانے والے لوگ خود زہریلے ہیں، دنیا کہتی ہے کہ پاکستان گرد ہے، ارے بیوقوفو! پاکستان اسلامی جمہوریہ ملک ہے اس کا تو نام ہی باوضوہوکر لینا چاہیے اگر اس کے باشندوں میں سے چند ایسے کالے تن من کے لوگ ہیںجو اس کا تاثر بگاڑنے کی خاطر المناک، دردناک ،اذیت ناک اموات سے معصوم جانوں کو ہمکنار کرتے ہیں، بچے مائوں کی دعائوں کے حصارمیں بھی بارود کانشانہ بن جاتے ہیں، ماں کی گود سے چھین کر مار دیے جاتے ہیں، تعفن زدہ تو ہر وہ انسان ہے جو حسد،بغض ،تعصب ،نفرت اور بدلے کی آڑ لیے بیٹھا ہے، اور مولی گاجر کی طرح معاشرے کی جڑوں کو کاٹ کر وطنِ پاک کو کھوکھلا کرنا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے کوڑے دانوں کو اس سرزمین سے ختم کرنے کیلئے ایک گڑھے میں ڈال کر دفنا دینا چاہیے، یقین کریں ایسے چند افراد کے مرجانے سے ہمارا معاشرہ ہماری اقتصادیات، اخلاقیات ،دین،تعلیم وتربیت، بچے بوڑھے، عورتیں، ادارے، نظام پالیسیاں اور قانون طاقتور ہوجائے گا اور نئی زندگی جینے لگے گا۔یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم افواہوں اور تجربات کے عادی ہوچکے ہیں افسوس یہ ہے کہ افواہوں پر یقین رکھتے ہیں،مگر تجربات سے سبق حاصل نہیں کرتے، سچ جانیے کہ وقت کو استاد ماننے والے اور اپنے اصلاف کی استادی سے منحرف ہونے والے ہمیشہ کنارے پر ڈوب جاتے ہیں۔ مسائل کا حل ہمیشہ تبدیلی نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو خاندانوں کے خاندان تبدیل ہوا کرتے۔مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے خود ہمیں ایک میز پر آنا ہوگا اپنے گریبانوں میں خود جھانکنا ہوگا لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر ہم اپنا دامن اٹھائیں گے تو شکم برہنہ ہوکر جگ ہنسائی کا سبب بنے گا۔سولہ آنے سچ تو یہ ہے کہ جو بھی شخص پاکستان کی تکریم، عوام کی فلاح ، مہنگائی کے توڑ، قانون کی بالادستی، افواج پاکستان کی عظمت، فوری انصاف کی فراہمی، بہترین پالیسیز اور ان پر یقینی کارروائی، غیرمتعصبانہ رویے کا یقین اور ہر طبقے کی ایک صف بندی کرانے کا عملی ثبوت دے گا تو وہ چاہے کسی قصبے کا کسان، کسی عمارت کا مزدور، کسی سرکاری دفتر کا کلرک اور کسی بھی پارٹی کا سیاسی ورکر ہی کیوں نہ ہو ہم اس کا ساتھ دینگے۔پاکستان کی حفاظت اور مضبوطی سیاسی پارٹیوں، بیوروکریٹس، سرکاری عہدوں پر تعینات افراد کے مرہون ہرگز نہیں ہے اس وطن کی مضبوطی ایک ایک ایک فرد کے باہمی ربط اخوت ومحبت کے اس عمل سے ہے جس کی مثال مہاجر اور انصار نے قائم کی ہے اور اقبال کی اس سوچ سے ہے جس میں کہتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہے
ہرفرد سے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہم سب کو اپنے اپنے اندر کے تعفن کو صاف کرنا ہے پھر کسی نظام کو ملحقہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔