• news
  • image

اپوزیشن جماعتوں کاگرینڈالائنس

نواز رضا
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سانحہ ساہیوال پر اپوزیشن سراپا احتجاج بنی رہی، سانحہ ساہیوال نے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ وزراء اس سانحہ کی وجہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کے دبائو میں نظر آئے ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن نے سانحہ ساہیوال پر بنائی گئی جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا اور سی ٹی ڈی کی تمام کار روائیوں کے آڈٹ کا مطالبہ کر دیا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے کہا ہے کہ ’’پرچے پہ پرچے‘‘ اور ’’جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی ‘‘ بن رہی ہے۔ پوری پارلیمنٹ میں سانحہ ساہیوال پر مقتولین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی۔ اپوزیشن نے حکومت کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ساہیوال میں پیش آنے والے سانحہ پر ہر آنکھ غمگین ہے۔ حکومت کی جانب سے سی ٹی ڈی کی کارروائی کے دفاع میں دیئے جانے والے تمام بیانات کو اپوزیشن نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ عمران خان کی حکومت کے پانچ ماہ میں پیش آنے والے اس واقعے نے ’’گڈ گورننس‘‘ کی قلعی کھول دی ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یہ بات بار بار کہی گئی کہ آج لوگ میاں شہباز شریف کو یاد کرتے ہیں۔سینیٹ میں سینیٹرراجہ ظفر الحق، شیری رحمان ، سراج الحق ، عبدالغفور حیدری ،جاوید عباسی ، ستارہ ایاز اور روبینہ خالد سمیت دیگر ارکان نے سانحہ ساہیوال پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ۔اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ساہیوال میں ایک سنگین سانحہ ہوا ہے ، یہ ایک آدمی کے قتل کا معاملہ نہیں ، 4 آدمیوں کے گولیوں سے چھلنی ہونے کا واقعہ ہے ، ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے ۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے ، ظلم ، جبر، قتل ہوا ہے ، حکومت نے جھوٹ بولا ہے ، چوبیس گھنٹوں میں حکومت نے اپنی بات سے سات بار یوٹرن لیا ہے ۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس پشتون تحفظ مومنٹ کے ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر نے ہنگامہ برپا کر کے سپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا ۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ہمارے علاقے میں سانحہ ساہیوال جیسے واقعات آئے روز منعقد ہوتے ہیں لیکن میڈیا میں یہ واقعات منظر عام پر نہیں آتے سیکیورٹی اہلکار گھروں میں گھس جاتے ہیں اور مرد گرفتار کر کے لے جاتے ہیں جس پر تحریک انصاف کے عامر لیاقت نے کہا کہ وہ سیکیورٹی اہلکاروں پر الزام تراشی نہ کریں سیکیورٹی اہلکار ’’گھس بیٹھیوں ‘‘کو نکالنے کے لئے سیکیورٹی اہلکار کارروائی کرتے ہیں جس پر محسن داوڑ اور علی وزیر سپیکر ڈائس کے سامنے آگئے اور ہنگامہ برپا کر دیا جس کے بعد سپیکر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر نا پڑا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے سانحہ ساہیوال کی منصفانہ تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے اور اس کی ذمہ داری براہ راست وزیر اعظم پر عائد کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون کی طرح وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ہم سانحہ ساہیوال پر دھرنا نہیں دیں گے لیکن حقائق بتائے جانے تک حکومت کو چین سے بیٹھنے نہیں دیں گے۔ سابق وزیر اعظم پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے بحث کے دوران کہا کہ سانحہ ساہیوال موجودہ حکومت کی بڑی نااہلی ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں، اس دوران وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع کے لئے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک پر مشتمل دو رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے لیکن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے حکومت کی نامزد کردہ کمیٹی سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے پر حکومت کی دو رکنی کمیٹی سے اپوزیشن کی دس رکنی کمیٹی ہی مذاکرات کرے گی۔ انھوں نے اس بات کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں سے مشورے کے بعد کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن جماعتوں کا گرینڈ الائنس وجود میں آ گیا ہے۔ سر دست اپوزیشن نے گرینڈ الائنس کے خدو خال طے نہیں کئے تا ہم اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر یکساں موقف اختیار کریں گی۔ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل 10 رکنی کمیٹی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع بارے آئینی ترمیم سمیت دیگر پارلیمانی امور پر یکساں موقف تیار کرے گی۔ اس کے بعد ہی حکومت کو کوئی جواب دیا جائے گا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے براہ راست بات کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور اپوزیشن لیڈر سے ملنے کے لئے تیار ہوں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔ حکومت کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے آئینی ترمیم منظور کرانا ممکن نہیں لہذا آئینی ترمیم منظور کرانے کے لئے اپوزیشن کی جماعتیں حکومت سے ’’بارگیننگ‘‘ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت زیر عتاب ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نیب کی تحویل میں ہیں۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو بھی دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اگر دونوں جماعتوں کی قیادت کو کوئی’’ ریلیف ‘‘نہ ملا تو فوجی عدالتوں کے قیام کے بارے میں آئینی ترمیم دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی اختیار کر کے اپوزیشن کو سانس لینے کا موقع دینا پڑے گا۔ دوسری جانب شنید ہے کہ ’’ پس پردہ قوتیں‘‘ بھی سرگرم عمل ہو گئی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور پس پردہ قوتوں کے درمیان معاملات ’’طے ‘‘ پا جائیں۔ متحدہ اپوزیشن نے منی بجٹ پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے منی بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا خدشہ ہے عوام پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی شدید مخالفت کی جائے گی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن