حکومت کو ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا
احمد کمال نظامی
سانحہ ساہیوال پر حکومت نے جو پہلے دن کہا اسی کو حق دار دے کر عوام کے جذبات سرد کرنے میں کامیاب
چوہدری پرویزالٰہی وزیراعظم عمران خان کو دبائو میں لا کر اپنے مقاصد کو حاصل کر پائیں گے ؟
کالم کا حسن یہ ہو تا ہے کہ وقت حاضرہ سے بات کا آغاز کیا جائے اور مستقبل فریب پر اختتام کیا جائے جیسے جمہوریت کی طاقت کا راز اور اس کی اصل قوت دہ احساس شراکت ہے جو یہ نظام عوام کو عطا کرتا ہے مگر ہماری بد قسمتی اور بد نصیبی ہے کہ پون صدی گزرنے کو ہے اور ہم خود کو جمہوریت کے عشان میں شمار کرتے ہیں لیکن اب تک جمہوری نظام میں عوام کو ریاستی ڈھانچے اور حکومتی معاملات میں نہ شراکت داری کا حق دیا گیا اور نہ شریک کیا گیا ‘ جبکہ ایک جمہوری معاشرہ میں وہی ریاست ملک اور قوم مضبوط مستحکم اور ترقی کرتی ہے جو ان اصولوں کو اپنا دستور اور نصب العین قرار دیتی ہے ‘ قیام پاکستان کے بعد جنرل ایوب خاں کے عہد مارشل لاء کے عہد سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اسی دور پر اشوب سے قیادت کے دعویٰ داروں نے قومی سوچ اور انداز فکر کو فروغ دینے کی بجائے علاقائی تعصبات ابھارتے رہے جس سے جمہوری نظام کی روح شدید مجروح ہوئی حتی کہ ملک دو لخت ہو گیا ‘ علاقائی محرومیوں کا ذکر خاصیمبالغہ انداز کرتے رہے اور کرتے چلے آ رہے ہیں‘ اس کی تازہ ترین مثال سانحہ ساہیوال سے دی جا سکتی ہے اس اندونگ سانحہ پر پوری قوم کی آنکھیں پر نم ہیں اور سانحہ ساہیوال پر اپوزیشن اور حکومت کے نمائندوں نے اس پر خوف سیاست کی جو کہ افسوس ناک ہے ‘ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جو جی آئی ٹی بنائی تھی اس کی روشنی میں خلیل فیملی کو بے گناہ قرار دے دیا گیا اور پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے جی آئی ٹی پر جو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خلیل فیملی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے آپریشن کو سو فیصد درست قرار دیا اور ذیشان کو دہشتگرد قرار دیا اور ذیشان کا خلیل فیملی سے کیا تعلق تھا اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی یہ وہی با تیں ہیں جو اس سانحہ کے رونما ہونے پر پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے دیگر صوبائی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہیں تھیں اور ساتھ ہی محکمہ انسداد دہشتگردی کے اے آئی جی اور پانچ پولیس افسروں معطل کرنے اور خلیل فیملی کو قتل کرنے کے الزام میں محکمہ انسداد دہشتگردی کے پانچ اہلکاروں کے دفعہ302کے تحت مقدمہ بھی قائم کر دیا اور کہا کہ ان پانچ اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چلا جائے گا لیکن غور طلب بات ہے کہ سانحہ ساہیوال سے قبل اپوزیشن کے لیڈروں آصف علی زرداری میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے خلاف تحریک انصاف نے جو سیاسی میدان گرم کر رکھا تھا اور اپنے مورچوں سے گولہ باری جاری تھی ‘ سانحہ ساہیوال پر بننے والی جے آئی ٹی رپورٹ آنے اور رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کن احکامات جاری ہونے تک پر اسرار خاموشی طاری رہی ‘حکومت کے فیصلہ پر عوام کا کیا در عمل ہے اس پر روشنی ڈالنے اور تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پنجاب حکومت نے جو فیصلہ عوام کو سنایا ہے ہر شخص ایسے ہی فیصلہ کی توقع کر رہے تھے ‘ پنجاب حکومت کے فیصلہ پر بہت سے سوالات ابھی تک اٹھ رہے ہیں ‘ لہذا صوبائی حکومت کے فیصلہ کی روشنی میں محکمہ انسداد دہشتگردی کے جن اہلکاروں کو ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار قرار دیا ان کے خلاف بھی اسی طرح قائم مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے جس طرح قصور کی معصوم زینب کے قاتل کو ایک ماہ کے اندر اندر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا تھا ‘ ماہرین قانون تو یہ کہتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کی خلیلی فیملی کا قتل ماورائے عدالت قتل نہیں تھا کیونکہ ماورائے قتل توپولیس مقابلہ میں ہو تا ہے جبکہ سانحہ ساہیوال میں پولیس مقابلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا وہ آئے اور ایک فیملی کو ڈاکوئوں کی طرح قتل کرکے اور لوٹ کر غائب ہو گئے کیونکہ وہ فیملی ایک شادی میں شرکت کیلئے لاہور سے جا رہے تھے ‘ پولیس کب تک بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے گی اور پولیس اپنے کسی بھی اقدام کو جائز قرار دینے کے لئے کئی نکات پیدا کر لیتی ہے اور پیٹی بھائیوں کو بچانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کر تی ہے ‘ جیسا کہ پانچ اہلکاروں کی قربانی دے کر عوام کے جذبات کو سرد کیا ہے ‘ اس کے ساتھ ہی (ق) لیگ والوں نے بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اور صوبائی وزیر یاسر عمار کے استفسار کے بعد (ق) لیگ کے لیڈر کامل علی آغانے جو کچھ کہا اور عمران خان کو سنائی ہیں وہ بھی بڑی غور طلب صورت حال پیدا کر دی ہے ‘ (ق) لیگ کے لیڈر چوہدری پرویز الٰہی سیاسی شطرنج کے ماہر ہیں اور چوہدری شجاعت حسین تو خود کو سیاسی شطرنج کے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں ‘ انہیں پتلیاں نچانا خوب آ تا ہے ان کے دست راست صوبائی وزیر عمار یاسر کا استعفیٰ ہلکی سی چنگاری ہے اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ یہ چنگاری شعلہ کب بنتی ہے شعلہ آگ میں کب تبدیل ہو تا ہے ‘ چوہدری برادران نے اپنی دیرینہ روایت کے مطابق عمران کو اپنے دبائو میں آنے کیلئے کامل علی آغا کے ہاتھ میں بندوق دے کر جو فائرنگ کرانی شروع کی ہے اور عمران خان کی حکومت جو محض سات ممبران پر کھڑی ہے کہ (ق) لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی اپنے پانچ ارکان واپس لے لیتے ہیں تو کیا پنجاب اور مرکز میں عدم استحکام پیدا نہیں ہو جائے گا ‘ اسے ہی سیاسی زبان میں دائو پیچ اور عوامی زبان میں بلیک میلنگ کہتے ہیں جبکہ چوہدری نثار علی خاں اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان جو تلخی پیدا ہو چکی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ چوہدری نثار علی اور میاں محمد نواز شریف پھر شیرو شکر ہو جائیں گے جبکہ چوہدری نثار علی ابھی تک پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں اور انہوں سے ابھی حلف نہیں اٹھا ‘ اگر ایاز صادق اور احمد محمود مخدوم میاں محمد نواز شریف سے این آر او دلا دیتے ہیں تو پھر وزیراعظم عمران خان پانچ سال تو در کنار اپنے اقتدار کا ایک سال بھی مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا ‘ عمران خان لاکھ کہتے رہیں کہ میری لڑائی ان ولن سے ہے جو منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی دولت اپنی کرپشن سے بیرون ملک منتقل کرتے رہے ہیں ‘ اس پر کوئی کان نہیں دھرے گا ‘ جیسا کہ سطور بالا میں تحریر کیا ہے کہ خود ہمارے سیاستدان اور حکمرانی کے شراکت دار جمہوریت کو کمزور کرتے رہے ہیں ‘ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے چوہدری برادران بڑے آشنا ہیں اور اس فن سے ماہر ہیں سیاسی زبان میں اسے ’’ دھوبی پٹکا ‘‘مارنا کہتے ہیں ‘جبکہ مولانا فضل الرحمان کہہ رہے ہیں کہ جیل سے جو ڈر جائے اور جیل نہ جائے نہ وہ سیاستدان ہو سکتا ہے اور نہ سیاسی لیڈر جبکہ موصوف جب سے سیاست میں ان ہوئے ہیں انہوں نے جیل کا گیٹ بھی نہیں دیکھا ‘ جیل جانا تو دور کی بات ہے ‘ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ نیا سال وزیراعظم عمران خان کیلئے بہت سے چینلجز لیکر آیا ہے اور ان کو نئے سے نئے بحران سے واسطہ پڑتا ہے جیسا کہ ان کی اتحادی جماعت (ق) لیگ کا بحران بھی سر اٹھا چکا ہے اسی طرح معاشی بحران سمیت ملک میں لا قانونیت ‘بیروز گاری ‘مہنگائی کے بحرانوں سمیت کئی بحران سر اٹھا کھڑے ہیں ‘ایک بحران ختم ابھی ہو تا بھی نہیں تو نیا بحران کھڑا ہو جاتا ہے ‘ حکومت چلانے کیلئے عمران خان کو ان بحرانوں سے نکلنا ہو گا ‘ اگر وہ (ق) لیگ کے بحران سمیت ان بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر حکومت چلانے کی راہیں نکل آئیں گی ‘ بصورت دیگر یہ بحران جو کھڑے ہیں اور سر اٹھا رہے ہیں ان کے بھنور سے نکلنا حکومت کے بس کا روگ نہیں‘اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اور یہ وقت رواں سال سے کے اختتام تک سامنے آجائے گا۔