• news

ساہیوال واقعہ بڑا ظلم پولیس کیسے سیدھی گولیاں چلا سکتی ہے آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے : ہائیکورٹ

لاہور(وقائع نگار خصوصی) ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل انکوائری کےلئے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دو رکنی بنچ بنا دیا۔ عدالت نے جے آئی ٹی کے سربراہ اور آئی جی پنجاب کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس آئی جی پنجاب پر برہم ہوگئے اور قرار دیا کہ آئندہ صوبے میں ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کیسے سیدھی گولیاں چلا سکتی ہے؟ چیف جسٹس سردار محمد شمیم احمد خان نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ابھی تک کیا انویسٹی گیشن ہوئی ہے۔ آئی جی صاحب یہ بڑے ظلم کی بات ہے۔ مجھے بتائیں کہ پولیس کو کیسے اختیار ہے کہ وہ سیدھی گولیاں چلائے۔ آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ گولیاں چلانے والوں کو گرفتار کر لیا گیا اور معاملے پر جے آئی ٹی بھی بنا دی گئی ہے جبکہ واقعہ میں ملوث سی ٹی ڈی کے افسروں کو معطل بھی کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ انکوائری کتنے دن میں مکمل ہو گی؟ ٹائم بتائیں۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ واقعہ کی مکمل تفتیش کیلئے کم از کم 30 دن چاہیے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ معاملہ اہم ہے۔ اس کیس کی سماعت کے لیے دو رکنی بنچ تشکیل دے رہے ہیں آئندہ سماعت 4 فروری کو جے آئی ٹی کے سربراہ ریکارڈ سمیت ہائیکورٹ پیش ہوں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پورے پنجاب میں اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔ تمام ڈی پی اوز کو آگاہ کر دیں۔ عدالت نے وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی۔ درخواست گزار کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل کمیشن بنانا صوبائی حکومت کا اختیار نہیں۔ وفاقی حکومت کا ہے۔ درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ جوڈیشل کمشن کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست دے دی ہے۔ عدالت میں آئی جی پنجاب اور درخواست گزار وکلاءمیں تلخ کلامی ہوئی۔ جس پر چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے سب کو اونچی آواز میں بات کرنے سے روک دیا۔
ساہیوال واقعہ/ بنچ

ای پیپر-دی نیشن