قومی اسمبلی‘ اپوزیشن کا پھر ہنگامہ‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل منظور
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) قومی اسمبلی کا اجلاس ضمنی فنانس بل منظور کئے بغیر ہی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔ اجلاس ایک بار پھر ہنگامہ آرائی کا شکار ہوا۔ اپوزیشن نے ایوان سے واک آﺅٹ کیا جبکہ کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے آدھ گھنٹے تک کارروائی معطل رہی تاہم ایوان نے مجالس قائمہ کے قیام کے لئے ایک تحریک اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد چھ سے بڑھا کر دس کرنے کا ترمیمی بل منظور کرلیا۔ اس بل کیلئے اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ راجہ پرویز اشرف نے نکتہ اعتراض پر جمعرات کے روز کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ہماری قیادت پر لفظی حملے ہوئے، یہی رویہ رہا تو آپ کے لیے ایوان چلانا مشکل ہو جائے گا۔ مراد سعید نے تقریر کے دوران بولنا شروع کیا تو اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً واک آوٹ کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر اسمبلی نہیں چلانی تو آپ کی مرضی ہے، ایسے اسمبلی نہیں چلے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کے اعتراض پر سپیکر نے کہا کہ میں کسی ٹویٹ سے متاثر نہیں ہوتا، فکر نہ کریں ایوان کی کارروائی اپنی مرضی سے چلاوں گا۔ کورم پورا نہ ہونے پر سپیکر نے اجلاس کی کارروائی معطل کر دی۔ اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی تحریک کی منظوری کے لئے پیش کی جس کی منظوری کے بعد بعد سپیکر نے ایوان سے بل کی شقوں کی یکے بعد دیگرے منظوری حاصل کی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی کافی تعداد موجود ہے۔ مزید ججوں کی تعیناتی کی ضرورت نہیں ہے۔ صوبوں کے کوٹے کا فیصلہ بھی ابھی ہونا ہے۔ اس بل کی منظوری میں جلدی نہ کی جائے۔ بل پر انہوں نے اپنی ترمیم پیش کی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بل کمیٹی سے منظور ہوکر آیا ہے۔ اس کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ میں ہمارا اختلافی نوٹ لگا ہوا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری ملیکا بخاری نے شاہد خاقان عباسی کی ترمیم کی مخالفت کی اور کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے بل کے اختلافی نوٹ کے ساتھ منظوری دی ہے۔ ججوں کی اہلیت کا معیار آئین کے آرٹیکل 193میں واضح ہے۔ ہم اس کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ایوان نے اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردیں۔رانا ثناءاللہ نے کہا کہ قانون انصاف کی قائمہ کمیٹی میں اپوزیشن کے 6 ارکان نے وزارت قانون سے تفصیلات مانگیں جن کا ہم سے وعدہ کیا گیا اس کا ہمارے اختلافی نوٹ میں بھی ذکر ہے۔ ان تفصیلات کا انتظار کئے بغیر رپورٹ مرتب کرکے ایوان میں بھجوا دی گئی۔ سپیکر نے کہا کہ اپوزیشن ارکان نے بل کو زیر غور لانے کی تحریک کے وقت مخالفت نہیں کی اس لئے موقع نہیں دیا جاسکتا۔ ایوان نے بل کی تمام شقوں کی منظوری دے دی۔ پارلیمانی سیکرٹری قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے تحریک پیش کی کہ عدالت عالیہ اسلام آباد (ترمیمی) بل 2019ءمنظور کیا جائے جس کی مخالفت کرتے ہوئے سید نوید قمر نے کہا کہ بل کو زیر غور لانے کے لئے تحریک کی منظوری کے وقت ہمیں موقع ہی فراہم نہیں کیا گیا۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ میں نے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے اختلافی نوٹ ڈرافٹ تیار کیا ہے۔ مجھے بات کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔اے پی پی کے مطابق قومی اسمبلی میں الیکشن ترمیمی آرڈیننس بل پیش کردیا گیا۔ بل کے مطابق خیبر پی کے میں حلقوں کی نئی حد بندیاں کی جائیں گی۔ بل وزیر پارلیمانی اور علی محمد خان نے پیش کیا۔ الیکشنایکٹ 2017 کے سیکشن میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔علاوہ ازیں حکومت اور اپوزیشن میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کے معاملے پر اتفاق رائے ہو گیا۔ اپوزیشن کو 18 اور حکومت کو 20 قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی ملے گی۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں بھی قائمہ کمیٹیوں کے سربراہی طے کر لی۔ ن لیگ کو 9 پیپلز پارٹی کو 6، ایم ایم اے کو 2، اے این پی کو 1 کمیٹی کی سربراہی ملے گی۔ قائمہ کمیٹیوں کے تشکیل کے نوٹیفکیشن پیر 28 جنوری کو جاری کئے جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی مشاورتی گروپ کے اجلاس میں قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کے لئے ناموں کو حتمی شکل دیدی گئی۔
قومی اسمبلی